قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ الصَّلاَةِ فِي السُّطُوحِ وَالمِنْبَرِ وَالخَشَبِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «وَلَمْ يَرَ الحَسَنُ بَأْسًا أَنْ يُصَلَّى عَلَى الجُمْدِ وَالقَنَاطِرِ، وَإِنْ جَرَى تَحْتَهَا بَوْلٌ أَوْ فَوْقَهَا أَوْ أَمَامَهَا إِذَا كَانَ بَيْنَهُمَا سُتْرَةٌ» وَصَلَّى أَبُو هُرَيْرَةَ: «عَلَى سَقْفِ المَسْجِدِ بِصَلاَةِ الإِمَامِ» وَصَلَّى ابْنُ عُمَرَ: «عَلَى الثَّلْجِ»

377. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قَالَ: سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ المِنْبَرُ؟ فَقَالَ: مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي، هُوَ مِنْ أَثْلِ الغَابَةِ عَمِلَهُ فُلاَنٌ مَوْلَى فُلاَنَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ، فَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ، كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ، خَلْفَهُ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى، فَسَجَدَ عَلَى الأَرْضِ، ثُمَّ عَادَ إِلَى المِنْبَرِ، ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالأَرْضِ»، فَهَذَا شَأْنُهُ، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ المَدِينِيِّ: سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الحَدِيثِ، قَالَ: فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الحَدِيثِ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ قَالَ: لاَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

حضرت ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے فرمایا کہ حضرت امام حسن بصری برف پر اور پلوں پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خواہ اس کے نیچے، اوپر، سامنے پیشاب ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور اس کے بیچ میں کوئی آڑ ہو اور ابوہریرہؓ نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی ( اور وہ نیچے تھا ) اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے برف پر نماز پڑھی۔تشریح : حافظ ابن حجر  فرماتے ہیں کہ حضرت امام بخاری قدس سرہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ ان صورتوں میں نماز درست ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ نجاست کا دورکرنا جو نمازی پر فرض ہے اس سے یہ غرض ہے کہ نمازی کے بدن یا کپڑے سے نجاست نہ لگے۔ اگردرمیان میں کوئی چیز حائل ہو جیسے لو ہے کا بمبا ہو یا ایسا کوئی نلوہ ہو جس کے اندر نجاست بہ رہی ہو اور اس کے اوپر کی سطح پر جہاں نجاست کا کوئی اثر نہیں ہے کوئی نماز پڑھے تو یہ درست ہے۔ حضرت ابوہریرہ والے اثر کو ابن ابی شیبہ اور سعید بن منصورنے نکالا ہے۔

377.

حضرت ابوحازم ؒ  فرماتے ہیں کہ حضرت سہل بن سعد  ؓ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ (نبی ﷺ کا) منبر کس چیز سے تیار کیا گیا تھا؟ وہ بولے کہ اب لوگوں میں اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں۔ وہ مقام غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا جسے رسول اللہ ﷺ کے لیے فلاں عورت کے فلاں غلام نے تیار کیا تھا۔ جب وہ تیار ہو چکا اور مسجد میں رکھ دیا گیا تھا تو رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہی۔ دیگر لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے، پھر آپ نے قراءت کی اور رکوع کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے رکوع کیا، پھر آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور پیچھے ہٹ کر زمین پر سجدہ کیا۔ (دونوں سجدے ادا کرنے کے بعد) پھر منبر پر لوٹ آئے، پھر قراءت کی اور رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ منبر نبوی کا یہی قصہ ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں کہ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا: مجھ سے امام احمد بن حنبل  ؒ نے اس حدیث کے متعلق سوال کیا اور کہا: میرا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں سے بلند جگہ پر تھے، اس لیے اس حدیث کی رو سے اس میں کوئی حرج نہیں کہ امام مقتدیوں سے بلند جگہ پر ہو۔ علی بن مدینی ؒ  کہتے ہیں: میں نے (احمد بن حنبل) سے کہا کہ سفیان بن عیینہ سے اس روایت کے متعلق بہت سوال کیا جاتا تھا، آپ نے ان سے یہ روایت نہیں سنی؟ تو انھوں نے فرمایا: نہیں (میں نے ان سے اس روایت کا سماع نہیں کیا )۔