Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: In how many (what sort of) clothes a woman should offer Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عکرمہ نے کہا کہ اگر عورت اپنا سارا جسم ایک ہی کپڑے سے ڈھانپ لے تو بھی نماز درست ہے۔
377.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھتے تو آپ کے ہمراہ کچھ خواتین اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی حاضر ہوتی تھیں۔ پھر (فراغت کے بعد) وہ اپنے گھروں کو ایسے لوٹ جاتیں کہ انھیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ عورت اگر ایک ہی چادر میں اچھی طرح لپٹ کر نماز ادا کرے تو نماز درست ہے، کیونکہ اس حدیث میں صرف چادروں میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے، ان کے ساتھ دوسرے کپڑوں کا ذکر نہیں ہوا ہے۔ چونکہ عورت کا پورا جسم چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ قابل ستر ہے، اس لیے عورتوں کے معاملے میں صحت نماز کا دارومدار کپڑوں کی گنتی پر نہیں بلکہ ستر پر ہے۔ اگر عورت سر سے پاؤں تک چادر لپیٹ لے تو نماز کے لیے کافی ہے۔ اگرچہ آئمہ کرام سے عورتوں کے لیے کپڑوں کی تعداد منقول ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کے لیے نماز کی صحت کسی گنتی پر موقوف ہے۔ چونکہ عام حالات میں عورت کا جسم چھپانے کے لیے ایک سے زیادہ کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے انھوں نے زیادہ کپڑوں کے استعمال کی ہدایت کی ہے، لیکن اگر ستر پوشی اور سارے جسم کو چھپانے کا مقصد ایک ہی کپڑے سے حاصل ہوجائے تو یہ بھی کافی ہے۔ چنانچہ امام ابن منذر ؒ نے جمہور کا قول کُرتے (قمیص) اور دوپٹے میں وجوب صلاۃ کا نقل کر کے لکھا ہے کہ اس سے مراد بدن اور سر کا ضروری طور پر چھپانا ہے اگر ایک ہی کپڑا اتنا بڑا ہو جس سے سارا بدن اور اس کے باقی حصے سے سر بھی چھپ سکے تو نماز درست ہو جائے گی۔ اس کے بعد حضرت عطاء ؒ اور ابن سیرین ؒ کے اقوال جو عورت کی نماز کے لیے کپڑوں کی تعداد سے متعلق ہیں ان کے متعلق لکھا ہے کہ یہ اقوال استحباب پر محمول ہیں۔ (فتح الباري:625/1) 2۔ عورتیں جب نماز سے فراغت کے بعد گھروں کو جاتیں تو پتہ نہ چلتا کہ کون سی عورت ہے؟ البتہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ عورت ہے مرد نہیں۔ عدم معرفت کی وجہ رات کا اندھیرا ہوتا یا ان کا خود کو چھپانا اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے کہ اندھیرے کی وجہ سے ان کی پہچان نہ ہو سکتی تھی۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:578) علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنے کی تھی، کبھی کبھار کسی ہنگامی صورت کے پیش نظر آپ نے صبح کی روشنی میں ادا کی ہے۔ نیز اس حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت مسلم خواتین رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کرتی تھیں۔ چنانچہ عورتوں کا مردوں کے ہمراہ نماز باجماعت ادا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔ (إعلام الحدیث:355/1) 3۔ امام بخاری ؒ کے استدلال پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ عورتیں چادر کو برقع کے طور پر استعمال کرتی تھیں، یہ مطلب نہیں کہ اس کے علاوہ جسم پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ استدلال کی بنیاد حدیث کا ظاہری مفہوم ہے۔ چونکہ دیگر کپڑوں کا ذکر نہیں، اس لیے احتمال ہے کہ کوئی اور کپڑا نہ ہو، اگرچہ امام بخاری ؒ نے اس کی تصریح نہیں کی، لیکن ان کی عادت ہے کہ اپنے اختیارات (موقف) کو عنوان میں ذکر کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ انھوں نے حضرت عکرمہ ؒ کے حوالے سے اسے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:625/1) اس کے علاوہ یہ توجیہ بھی ہو سکتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں کپڑوں کی فراوانی نہ تھی غربت کا دور تھا اس لیے حالات کے پیش نظر ہو سکتا ہے کہ عورتوں کے پاس صرف ایک ہی چادر ہو۔ نوٹ: صبح کی نماز اسفار میں ہو یا اندھیرے میں؟ اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ اس حدیث پر فوائد لکھنے کے بعد راقم نے اپنے گھر اس کا تذکرہ کیا کہ عورت صرف ایک چادر میں بھی نماز پڑھ سکتی ہے۔ بشرطیکہ اس نے اس سے اپنے جسم کو لپیٹ رکھا ہو کیونکہ صحابہ کے دور میں کپڑوں کی فراوانی نہ تھی، لہٰذا ممکن ہے کہ حالات کے پیش نظر اس وقت ایک ہی چادر ہو۔ اس پر اہلیہ نے تعلیق لگائی کہ آپ کا یہ کہنا محل نظر ہے، کیونکہ جب پردے سے متعلق سورۃ النور کی آیات نازل ہوئیں تو سب سے پہلے مہاجرین سابقین کی خواتین نے ان پر عمل کیا وہ اس طرح کہ انھوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنائے اور ان سے اپنے سراور سینے کو ڈھانپ لیا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4758) اگر ان کے پاس چادروں کے علاوہ اور کپڑے نہیں تھے تو چادروں کو پھاڑنے کے بعد وہ کیا پہنتی تھیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ خواتین اسلام کے پاس صرف چادریں ہی نہ تھیں بلکہ ان کے علاوہ اور لباس بھی تھا جسے وہ زیب تن کرتی تھیں لیکن مسئلہ اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ کسی عورت کے پاس صرف ایک چادر ہواور اسے اپنے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کر جسم کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہوتو اس مین نماز جائز ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل کو مضبوط کرنے کے لیے اسے اس وقت کی خواتین کے لیے دیگر کپڑوں کی عدم دستیابی سے معلق نہ کیا جائے۔ واللہ أعلم۔ اللہ تعالیٰ اہلیہ کو اجر عظیم عطا فرمائے کہ انھوں نے اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
370
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
372
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
372
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
372
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ عورت کے لیے وہی حکم ہے جو مرد حضرات کا ہے کہ ستر کا چھپانا ضروری ہے۔ اس کے لیے کپڑوں کی تعداد یا نوعیت کی چنداں ضرورت نہیں چونکہ عورت کے لیے تمام جسم چھپانا ضروری ہے۔اس لیے مدار جسم چھپانے پر ہے حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ کے بیان سے یہی معلوم ہوتا ہے حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ اثر مصنف عبدالرزاق (3/129)میں موصولاً بیان ہوا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ اگر عورت ایک کپڑے میں خود کو لپیٹ لے تاآنکہ اس کے بال بھی نظر نہ آئیں تو اس کے لیے یہ کافی ہے۔( فتح الباری:1/625۔)
اور عکرمہ نے کہا کہ اگر عورت اپنا سارا جسم ایک ہی کپڑے سے ڈھانپ لے تو بھی نماز درست ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھتے تو آپ کے ہمراہ کچھ خواتین اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی حاضر ہوتی تھیں۔ پھر (فراغت کے بعد) وہ اپنے گھروں کو ایسے لوٹ جاتیں کہ انھیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ عورت اگر ایک ہی چادر میں اچھی طرح لپٹ کر نماز ادا کرے تو نماز درست ہے، کیونکہ اس حدیث میں صرف چادروں میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے، ان کے ساتھ دوسرے کپڑوں کا ذکر نہیں ہوا ہے۔ چونکہ عورت کا پورا جسم چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ قابل ستر ہے، اس لیے عورتوں کے معاملے میں صحت نماز کا دارومدار کپڑوں کی گنتی پر نہیں بلکہ ستر پر ہے۔ اگر عورت سر سے پاؤں تک چادر لپیٹ لے تو نماز کے لیے کافی ہے۔ اگرچہ آئمہ کرام سے عورتوں کے لیے کپڑوں کی تعداد منقول ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کے لیے نماز کی صحت کسی گنتی پر موقوف ہے۔ چونکہ عام حالات میں عورت کا جسم چھپانے کے لیے ایک سے زیادہ کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے انھوں نے زیادہ کپڑوں کے استعمال کی ہدایت کی ہے، لیکن اگر ستر پوشی اور سارے جسم کو چھپانے کا مقصد ایک ہی کپڑے سے حاصل ہوجائے تو یہ بھی کافی ہے۔ چنانچہ امام ابن منذر ؒ نے جمہور کا قول کُرتے (قمیص) اور دوپٹے میں وجوب صلاۃ کا نقل کر کے لکھا ہے کہ اس سے مراد بدن اور سر کا ضروری طور پر چھپانا ہے اگر ایک ہی کپڑا اتنا بڑا ہو جس سے سارا بدن اور اس کے باقی حصے سے سر بھی چھپ سکے تو نماز درست ہو جائے گی۔ اس کے بعد حضرت عطاء ؒ اور ابن سیرین ؒ کے اقوال جو عورت کی نماز کے لیے کپڑوں کی تعداد سے متعلق ہیں ان کے متعلق لکھا ہے کہ یہ اقوال استحباب پر محمول ہیں۔ (فتح الباري:625/1) 2۔ عورتیں جب نماز سے فراغت کے بعد گھروں کو جاتیں تو پتہ نہ چلتا کہ کون سی عورت ہے؟ البتہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ عورت ہے مرد نہیں۔ عدم معرفت کی وجہ رات کا اندھیرا ہوتا یا ان کا خود کو چھپانا اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے کہ اندھیرے کی وجہ سے ان کی پہچان نہ ہو سکتی تھی۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:578) علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنے کی تھی، کبھی کبھار کسی ہنگامی صورت کے پیش نظر آپ نے صبح کی روشنی میں ادا کی ہے۔ نیز اس حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت مسلم خواتین رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کرتی تھیں۔ چنانچہ عورتوں کا مردوں کے ہمراہ نماز باجماعت ادا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔ (إعلام الحدیث:355/1) 3۔ امام بخاری ؒ کے استدلال پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ عورتیں چادر کو برقع کے طور پر استعمال کرتی تھیں، یہ مطلب نہیں کہ اس کے علاوہ جسم پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ استدلال کی بنیاد حدیث کا ظاہری مفہوم ہے۔ چونکہ دیگر کپڑوں کا ذکر نہیں، اس لیے احتمال ہے کہ کوئی اور کپڑا نہ ہو، اگرچہ امام بخاری ؒ نے اس کی تصریح نہیں کی، لیکن ان کی عادت ہے کہ اپنے اختیارات (موقف) کو عنوان میں ذکر کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ انھوں نے حضرت عکرمہ ؒ کے حوالے سے اسے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:625/1) اس کے علاوہ یہ توجیہ بھی ہو سکتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں کپڑوں کی فراوانی نہ تھی غربت کا دور تھا اس لیے حالات کے پیش نظر ہو سکتا ہے کہ عورتوں کے پاس صرف ایک ہی چادر ہو۔ نوٹ: صبح کی نماز اسفار میں ہو یا اندھیرے میں؟ اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ اس حدیث پر فوائد لکھنے کے بعد راقم نے اپنے گھر اس کا تذکرہ کیا کہ عورت صرف ایک چادر میں بھی نماز پڑھ سکتی ہے۔ بشرطیکہ اس نے اس سے اپنے جسم کو لپیٹ رکھا ہو کیونکہ صحابہ کے دور میں کپڑوں کی فراوانی نہ تھی، لہٰذا ممکن ہے کہ حالات کے پیش نظر اس وقت ایک ہی چادر ہو۔ اس پر اہلیہ نے تعلیق لگائی کہ آپ کا یہ کہنا محل نظر ہے، کیونکہ جب پردے سے متعلق سورۃ النور کی آیات نازل ہوئیں تو سب سے پہلے مہاجرین سابقین کی خواتین نے ان پر عمل کیا وہ اس طرح کہ انھوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنائے اور ان سے اپنے سراور سینے کو ڈھانپ لیا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4758) اگر ان کے پاس چادروں کے علاوہ اور کپڑے نہیں تھے تو چادروں کو پھاڑنے کے بعد وہ کیا پہنتی تھیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ خواتین اسلام کے پاس صرف چادریں ہی نہ تھیں بلکہ ان کے علاوہ اور لباس بھی تھا جسے وہ زیب تن کرتی تھیں لیکن مسئلہ اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ کسی عورت کے پاس صرف ایک چادر ہواور اسے اپنے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کر جسم کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہوتو اس مین نماز جائز ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل کو مضبوط کرنے کے لیے اسے اس وقت کی خواتین کے لیے دیگر کپڑوں کی عدم دستیابی سے معلق نہ کیا جائے۔ واللہ أعلم۔ اللہ تعالیٰ اہلیہ کو اجر عظیم عطا فرمائے کہ انھوں نے اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائی۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عکرمہ کہتے ہیں: اگر عورت نے ایک کپڑے سے سارا جسم ڈھانک لیا ہے تو اس کی نماز جائز ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ فجر کی نماز پڑھتے اور آپ ﷺ کے ساتھ نماز میں کئی مسلمان عورتیں اپنی چادریں اوڑھے ہوئے شریک نماز ہوتیں۔ پھر اپنے گھروں کو واپس چلی جاتی تھیں۔ اس وقت انھیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ ظاہر میں وہ عورتیں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتی تھیں۔ ثابت ہوا کہ ایک کپڑے سے اگر عورت اپنا سارا بدن چھپالے تونماز درست ہے۔ مقصود پردہ ہے وہ جس طور پر مکمل حاصل ہو صحیح ہے۔ کتنی ہی غریب عورتیں ہیں جن کوبہت مختصر کپڑے میسر ہوتے ہیں، اسلام میں ان سب کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) used to offer the Fajr prayer and some believing women covered with their veiling sheets used to attend the Fajr prayer with him and then they would return to their homes unrecognized .