قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ الصَّلاَةِ فِي السُّطُوحِ وَالمِنْبَرِ وَالخَشَبِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «وَلَمْ يَرَ الحَسَنُ بَأْسًا أَنْ يُصَلَّى عَلَى الجُمْدِ وَالقَنَاطِرِ، وَإِنْ جَرَى تَحْتَهَا بَوْلٌ أَوْ فَوْقَهَا أَوْ أَمَامَهَا إِذَا كَانَ بَيْنَهُمَا سُتْرَةٌ» وَصَلَّى أَبُو هُرَيْرَةَ: «عَلَى سَقْفِ المَسْجِدِ بِصَلاَةِ الإِمَامِ» وَصَلَّى ابْنُ عُمَرَ: «عَلَى الثَّلْجِ»

378. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَقَطَ عَنْ فَرَسِهِ فَجُحِشَتْ سَاقُهُ - أَوْ كَتِفُهُ - وَآلَى مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا، فَجَلَسَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ دَرَجَتُهَا مِنْ جُذُوعٍ، فَأَتَاهُ أَصْحَابُهُ يَعُودُونَهُ، فَصَلَّى بِهِمْ جَالِسًا وَهُمْ قِيَامٌ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ: «إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا» وَنَزَلَ لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ آلَيْتَ شَهْرًا، فَقَالَ: «إِنَّ الشَّهْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

حضرت ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے فرمایا کہ حضرت امام حسن بصری برف پر اور پلوں پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خواہ اس کے نیچے، اوپر، سامنے پیشاب ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور اس کے بیچ میں کوئی آڑ ہو اور ابوہریرہؓ نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی ( اور وہ نیچے تھا ) اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے برف پر نماز پڑھی۔تشریح : حافظ ابن حجر  فرماتے ہیں کہ حضرت امام بخاری قدس سرہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ ان صورتوں میں نماز درست ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ نجاست کا دورکرنا جو نمازی پر فرض ہے اس سے یہ غرض ہے کہ نمازی کے بدن یا کپڑے سے نجاست نہ لگے۔ اگردرمیان میں کوئی چیز حائل ہو جیسے لو ہے کا بمبا ہو یا ایسا کوئی نلوہ ہو جس کے اندر نجاست بہ رہی ہو اور اس کے اوپر کی سطح پر جہاں نجاست کا کوئی اثر نہیں ہے کوئی نماز پڑھے تو یہ درست ہے۔ حضرت ابوہریرہ والے اثر کو ابن ابی شیبہ اور سعید بن منصورنے نکالا ہے۔

378.

حضرت انس بن مالک  ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر گئے تو آپ کی پنڈلی یا کندھا مجروح ہو گیا اور آپ نے ایک ماہ تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی، اس بنا پر اپنے بالا خانے میں تشریف فر ہوئے جس کی سیڑھی کھجور کے تنوں کی تھی، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ کی تیمارداری کے لیے آئے، آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بیٹھ کر نماز پڑھائی جبکہ وہ کھڑے تھے۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: ’’امام تو اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اسی طرح جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر اس کی اقتدا کرو۔’’ پھر آپ نے انتیس دن پورے ہونے پر بالاخانے سے نزول فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو ایک ماہ الگ رہنے کی قسم کھائی تھی! آپ نے فرمایا: :مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔‘‘