باب: حاشیہ (بیل) لگے ہوئے کپڑے میں نماز پڑھنا اور اس کے نقش و نگار کو دیکھنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: If a person offered Salat (prayer) in a dress with marks and looked at those marks during the Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
378.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ منقش چادر میں نماز پڑھی۔ آپ کی ایک نظر اس کے نقش و نگار پر پڑی تو آپ نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا: ’’میری اس چادر کو ابوجہم کے پاس واپس لے جاؤ اور ابوجہم سے اس کی انبجانی (سادہ) چادر لے آو کیونکہ اس منقش چادر نے مجھے ابھی اپنی نماز میں دوسری طرف متوجہ کر دیا تھا۔‘‘ ہشام بن عروہ نے اپنے باپ عروہ سے اور وہ حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے اس چادر کے نقش و نگار کی طرف بحالت نماز نظر کی تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ مجھے فتنے میں نہ ڈال دے۔‘‘
تشریح:
1۔ منقش کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ امام بخاریؒ نے اس کے متعلق عنوان میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، لیکن جو روایت پیش کی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز ہو جائے گی، کیونکہ نماز کے لیے تو کپڑے کا ساتر اورطاہر ہونا ضروری ہے جو اس صورت میں بھی حاصل ہے، لیکن اگر نمازی یہ خیال کرے کہ ایسا کپڑا اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ چنانچہ حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ نماز کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی ایک نظر کپڑے کے نقش و نگار پر پڑی تو آپ نے نماز کو تو جاری رکھا نہ اسے ختم کیا اور نہ پڑھنے کے بعد اس کا اعادہ فرمایا۔ امام بخاری ؒ کا مدعا ثابت ہو گیا کہ اس قسم کے کپڑے میں نماز ہو جاتی ہے، لیکن اگر اس کے استعمال میں فتنے کا سامان مہیا ہوتا ہو تو سادہ کپڑا استعمال کرنا اولیٰ ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو اشیاء بھی دوران نماز میں نمازی کے خشوع میں خلل انداز ہوں ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ منقش جائے نماز کا حکم بھی یہی ہے۔ 2۔ ابن شہاب عن عروہ والی پہلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نقش و نگار کی طرف متوجہ ہوئے۔ دوسری ہشام عن عروہ والی روایت میں ہے کہ آپ کو فتنے میں پڑنے کا اندیشہ لاحق ہوا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے دونوں باتوں کو متضاد خیال کر کے پہلی روایت کی بایں طور تاویل کی ہے کہ قریب تھا کہ آپ نقش و نگار کی طرف متوجہ ہو جاتے، یعنی پہلی روایت کا مطلب دوسری روایت کے مطابق کردیا ہے کہ آپ کو غفلت بھی پیش نہیں آئی تھی۔ (فتح الباري:626/1) لیکن اس حدیث سے بعض شارحین نے ایک مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ نماز میں کوئی غیر متعلق خیال آنے پر نماز خراب نہیں ہوتی۔ اگر رسول اللہ ﷺ کو کسی درجے میں بھی غفلت پیش نہیں آئی تھی، بلکہ صرف اس کا خوف وخطرہ ہی تھا تو استدلال مذکور کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟اس لیے بہتر توجیہ یہ ہے کہ غفلت کا تحقق ووجود تو تسلیم کر لیا جائے، لیکن یہ غفلت فتنے میں پڑجانے کے درجے سے بہت کم تھی جس میں غیر متعلق خیال و فکر میں استغراق کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ صورت رسول اللہ ﷺ کو پیش نہیں آئی بلکہ اس کا صرف اندیشہ پیدا ہوا ممکن ہے نقش و نگار کی طرف توجہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب صنعت گری کا فکرو خیال پیدا ہوا ہو جسے آپ نے اپنے مرتبہ عالیہ کی نسبت سے ایک درجے کا نقص خیال فرمایا ہو۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ اللہ کی طرف توجہ سے ہٹ گئے ہوں، کیونکہ بعض لوگ دو کاموں میں بیک وقت مشغول ہوتے ہیں اور کسی ایک امرکی ادائیگی میں نقص واقع نہیں ہوتا۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معمولی درجے کا فکری اشتعال مانع صلاۃ نہیں اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے۔ نیز اگر نماز میں نماز سے باہر کی کسی چیز کا خیال آجائے تو نماز درست ہے، بعض سلف سے جو منقول ہے کہ اس سے نماز کی صحت پر اثر پڑے گا وہ معتبرنہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں خشوع اور دل کا پوری طرح متوجہ ہونا مطلوب ہے لہٰذا نمازی کو چاہیے کہ حتی الامکان اپنے قصد وارادے سے دوران نماز میں دوسرے خیالات نہ آنے دے اور اگر خود بخود آجائیں تو ان کی طرف توجہ نہ دے۔ (عمدة القاري:314/3) 4۔ رسول اللہ ﷺ نے اس منقش چادر کو فتنے کا سامان قراردیا تو آپ نے اسے ابو جہم ؓ کو کیوں واپس کیا؟ جب وہ آپ کے لیے باعث فتنہ تھی تو حضرت ابو جہم ؓ کے لیے تو وہ بدرجہ اولیٰ باعث فتنہ ہو سکتی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے اس کی دلجوئی کے لیے اس چادر کو واپس کیا تاکہ وہ اسے کسی اور مصرف میں لا سکے اس لیے واپس نہیں کیا کہ وہ اس میں نماز ادا کرے۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت ابو جہم ؓ چونکہ نابینا تھے اس لیے منقش کپڑا ان کے حق میں سامان فتنہ نہ تھا۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ جس چیز کا اثر رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک پر ہو اس کا اثر عوام کے دل پر بھی ہو، کیونکہ آپ کا قلب مبارک صاف آئینے کی طرح تھا۔ اس لیے وہ کمال صفائی اور غایت لطافت کی بنا پر ظاہری نقوش کا اثر جلدی قبول کر لیتا تھا، اس کے برعکس اگر آئینے پر صفائی نہ ہو تو وہ معمولی نقوش کو قبول ہی نہیں کرتا۔ اس لیے آپ نے وہ منقش چادر ابو جہم کو واپس کردی کہ اگر وہ استعمال کریں گے تو کچھ مضائقہ نہیں ہو گا۔ 5۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ چادر ابو جہم کو اس لیے واپس کی تھی کہ اسی نے آپ کو بطور ہدیہ بھیجی تھی جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو جہم بن حذیفہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو ایک منقش چادر بطور تحفہ بھیجی ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عطیہ بھیجنے والے کو اگر اس کا عطیہ واپس کردیا جائے اور وہ خود اسے واپس لینے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اسے واپس لینے میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ابو جہم ؓ کی دلجوئی کے لیے اس منقش چادر کی جگہ سادہ چادر لینے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ اپنے ہدیے کی واپسی پر دل برداشتہ نہ ہو۔ (شرح ابن بطال:37/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
371
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
373
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
373
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
373
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ منقش چادر میں نماز پڑھی۔ آپ کی ایک نظر اس کے نقش و نگار پر پڑی تو آپ نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا: ’’میری اس چادر کو ابوجہم کے پاس واپس لے جاؤ اور ابوجہم سے اس کی انبجانی (سادہ) چادر لے آو کیونکہ اس منقش چادر نے مجھے ابھی اپنی نماز میں دوسری طرف متوجہ کر دیا تھا۔‘‘ ہشام بن عروہ نے اپنے باپ عروہ سے اور وہ حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے اس چادر کے نقش و نگار کی طرف بحالت نماز نظر کی تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ مجھے فتنے میں نہ ڈال دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ منقش کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ امام بخاریؒ نے اس کے متعلق عنوان میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، لیکن جو روایت پیش کی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز ہو جائے گی، کیونکہ نماز کے لیے تو کپڑے کا ساتر اورطاہر ہونا ضروری ہے جو اس صورت میں بھی حاصل ہے، لیکن اگر نمازی یہ خیال کرے کہ ایسا کپڑا اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ چنانچہ حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ نماز کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی ایک نظر کپڑے کے نقش و نگار پر پڑی تو آپ نے نماز کو تو جاری رکھا نہ اسے ختم کیا اور نہ پڑھنے کے بعد اس کا اعادہ فرمایا۔ امام بخاری ؒ کا مدعا ثابت ہو گیا کہ اس قسم کے کپڑے میں نماز ہو جاتی ہے، لیکن اگر اس کے استعمال میں فتنے کا سامان مہیا ہوتا ہو تو سادہ کپڑا استعمال کرنا اولیٰ ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو اشیاء بھی دوران نماز میں نمازی کے خشوع میں خلل انداز ہوں ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ منقش جائے نماز کا حکم بھی یہی ہے۔ 2۔ ابن شہاب عن عروہ والی پہلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نقش و نگار کی طرف متوجہ ہوئے۔ دوسری ہشام عن عروہ والی روایت میں ہے کہ آپ کو فتنے میں پڑنے کا اندیشہ لاحق ہوا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے دونوں باتوں کو متضاد خیال کر کے پہلی روایت کی بایں طور تاویل کی ہے کہ قریب تھا کہ آپ نقش و نگار کی طرف متوجہ ہو جاتے، یعنی پہلی روایت کا مطلب دوسری روایت کے مطابق کردیا ہے کہ آپ کو غفلت بھی پیش نہیں آئی تھی۔ (فتح الباري:626/1) لیکن اس حدیث سے بعض شارحین نے ایک مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ نماز میں کوئی غیر متعلق خیال آنے پر نماز خراب نہیں ہوتی۔ اگر رسول اللہ ﷺ کو کسی درجے میں بھی غفلت پیش نہیں آئی تھی، بلکہ صرف اس کا خوف وخطرہ ہی تھا تو استدلال مذکور کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟اس لیے بہتر توجیہ یہ ہے کہ غفلت کا تحقق ووجود تو تسلیم کر لیا جائے، لیکن یہ غفلت فتنے میں پڑجانے کے درجے سے بہت کم تھی جس میں غیر متعلق خیال و فکر میں استغراق کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ صورت رسول اللہ ﷺ کو پیش نہیں آئی بلکہ اس کا صرف اندیشہ پیدا ہوا ممکن ہے نقش و نگار کی طرف توجہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب صنعت گری کا فکرو خیال پیدا ہوا ہو جسے آپ نے اپنے مرتبہ عالیہ کی نسبت سے ایک درجے کا نقص خیال فرمایا ہو۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ اللہ کی طرف توجہ سے ہٹ گئے ہوں، کیونکہ بعض لوگ دو کاموں میں بیک وقت مشغول ہوتے ہیں اور کسی ایک امرکی ادائیگی میں نقص واقع نہیں ہوتا۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معمولی درجے کا فکری اشتعال مانع صلاۃ نہیں اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے۔ نیز اگر نماز میں نماز سے باہر کی کسی چیز کا خیال آجائے تو نماز درست ہے، بعض سلف سے جو منقول ہے کہ اس سے نماز کی صحت پر اثر پڑے گا وہ معتبرنہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں خشوع اور دل کا پوری طرح متوجہ ہونا مطلوب ہے لہٰذا نمازی کو چاہیے کہ حتی الامکان اپنے قصد وارادے سے دوران نماز میں دوسرے خیالات نہ آنے دے اور اگر خود بخود آجائیں تو ان کی طرف توجہ نہ دے۔ (عمدة القاري:314/3) 4۔ رسول اللہ ﷺ نے اس منقش چادر کو فتنے کا سامان قراردیا تو آپ نے اسے ابو جہم ؓ کو کیوں واپس کیا؟ جب وہ آپ کے لیے باعث فتنہ تھی تو حضرت ابو جہم ؓ کے لیے تو وہ بدرجہ اولیٰ باعث فتنہ ہو سکتی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے اس کی دلجوئی کے لیے اس چادر کو واپس کیا تاکہ وہ اسے کسی اور مصرف میں لا سکے اس لیے واپس نہیں کیا کہ وہ اس میں نماز ادا کرے۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت ابو جہم ؓ چونکہ نابینا تھے اس لیے منقش کپڑا ان کے حق میں سامان فتنہ نہ تھا۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ جس چیز کا اثر رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک پر ہو اس کا اثر عوام کے دل پر بھی ہو، کیونکہ آپ کا قلب مبارک صاف آئینے کی طرح تھا۔ اس لیے وہ کمال صفائی اور غایت لطافت کی بنا پر ظاہری نقوش کا اثر جلدی قبول کر لیتا تھا، اس کے برعکس اگر آئینے پر صفائی نہ ہو تو وہ معمولی نقوش کو قبول ہی نہیں کرتا۔ اس لیے آپ نے وہ منقش چادر ابو جہم کو واپس کردی کہ اگر وہ استعمال کریں گے تو کچھ مضائقہ نہیں ہو گا۔ 5۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ چادر ابو جہم کو اس لیے واپس کی تھی کہ اسی نے آپ کو بطور ہدیہ بھیجی تھی جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو جہم بن حذیفہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو ایک منقش چادر بطور تحفہ بھیجی ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عطیہ بھیجنے والے کو اگر اس کا عطیہ واپس کردیا جائے اور وہ خود اسے واپس لینے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اسے واپس لینے میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ابو جہم ؓ کی دلجوئی کے لیے اس منقش چادر کی جگہ سادہ چادر لینے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ اپنے ہدیے کی واپسی پر دل برداشتہ نہ ہو۔ (شرح ابن بطال:37/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں ابراہیم بن سعد نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے کہ نبی ﷺ نے ایک چادر میں نماز پڑھی۔ جس میں نقش و نگار تھے۔ آپ ﷺ نے انھیں ایک مرتبہ دیکھا۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میری یہ چادر ابوجہم ( عامر بن حذیفہ ) کے پاس لے جاؤ اور ان کی انبجانیہ والی چادر لے آؤ، کیونکہ اس چادر نے ابھی نماز سے مجھ کو غافل کر دیا۔ اور ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی، انھوں نے عائشہ ؓ سے کہ نبی ﷺ نے فرمایا میں نماز میں اس کے نقش و نگار دیکھ رہا تھا، پس میں ڈرا کہ کہیں یہ مجھے غافل نہ کر دے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عامربن حذیفہ صحابی ابوجہم ؓ نے یہ نقش ونگاروالی چادرآپ کو تحفہ میں پیش کی تھی۔ آپ نے اسے واپس کردیا اور سادہ چادران سے منگالی تاکہ ان کو رنج نہ ہوکہ حضور ﷺ نے میراتحفہ واپس کردیا۔ معلوم ہوا کہ جو چیز نماز کے اندر خلل کا سبب بن سکے اس کو علیحدہ کرنا ہی اچھا ہے۔ ہشام بن عروہ کی تعلیق کو امام احمد ؒ اور ابن ابی شیبہ ؒ اور مسلم ؒ اور ابوداؤد ؒ نے نکالا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) prayed in a Khamisa (a square garment) having marks. During the prayer, he looked at its marks. So when he finished the prayer he said, "Take this Khamisa of mine to Abu Jahm and get me his Inbijaniya (a woolen garment without marks) as it (the Khamisa) has diverted my attention from the prayer." The Prophet (ﷺ) said, 'I was looking at its (Khamisa's) marks during the prayers and I was afraid that it may put me in trial (by taking away my attention).