تشریح:
1۔ اس واقعے کی تفصیل اس طرح ہے: عمر و بن میمون کہتے ہیں کہ میں یمن میں اپنی بکریاں چرا رہا تھا میں نے دیکھا کہ ایک بندر، بندریا کولے کر آیا اور اس کا ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھ کر سوگیا۔ اس دوران میں ایک چھوٹا بندرآیا۔ اس نے بندریا کو اشارہ کیا تو اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ بندر کے نیچے سے نکالا اور چھوٹے بندر کے ساتھ چلی گئی پھر اس نے صحبت کی، میں انھیں دیکھ رہاتھا۔ فراغت کے بعد بندریا واپس آئی اور اپنا ہاتھ بندر کے نیچے کرنے لگی۔ اتنے میں وہ بیدار ہو گیا اور ایک چیخ ماری تو بندر جمع ہوگئے۔ یہ اس بندریا کی طرف اشارہ کرتا اور چلا رہاتھا۔ آخر دوسرے بندر ادھر اُدھر گئے تو اس چھوٹے بندر کو پکڑ لائے جسے میں نے بھی پہچان لیا، پھر انھوں نے ان کے لیےایک گڑھا کھودا اور دونوں کو اس میں کھڑا کر کے سنگسار کر ڈالا۔ اس وقت میں نے رجم کا عمل انسانوں کے علاوہ جانوروں میں دیکھا۔ (فتح الباري:202/7)
2۔اس حدیث پر منکرین حدیث نے اعتراض کیا ہے کہ عمرو بن میمون نے کیسے سمجھ لیا کہ اس بندر نے زنا کیا ہے کیونکہ جانوروں میں تو سلسلہ ازواج نہیں ہے اور نہ بندریا کسی کی بیوی ہی تھی، پھر انھیں رجم کرنے کا کیا مطلب؟ غیر مکلف کی طرف زنا کی نسبت کرنا پھر ان پر حدود رجم قائم کرنا عجیب بات ہے؟ لیکن کیا یہ بعید از عقل ہے کہ زنا کی برائی، گندگی اور خرابی بیان کرنا مقصود ہو۔ زنا اور بد کرداری اس قدر معیوب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض حیوانات میں اس سے نفرت کا ادراک پیدا کیا اور انھوں نے اس عمل پر حدرجم جاری کی، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس سےملتا جلتا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک گھوڑے کو نسل کشی کے لیے اس گھوڑی کے پاس لایا گیا جس کے بطن سے وہ پیدا ہو اتھا لیکن گھوڑے نے اس سے جفتی نہ کی پھر لوگوں نے گھوڑی کو بند کمرے میں رکھا اور اس پر کپڑے ڈال کر گھوڑے کو اس پر داخل کیا تو اس نے جفتی کی۔ جب اس نے اپنی ماں کی بو سونگھی تو غیرت کے مارے اپنے آلہ تناسل کو چبا ڈالا۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ جب گھوڑے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ادراک پیدا کردیا جو ذہانت و فطانت میں بندروں سے بہت پیچھے ہے تو بندروں میں اس ادراک کا پیدا ہونا ناممکن نہیں جو بے شمار عادات میں انسانوں سے ملتے جلتے ہیں۔ (فتح الباري:203/7)
3۔واضح رہے کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ اور صدوق ہیں خود عمروبن میمون مشہور تابعی اور ثقہ عابد تھے۔ سند کے اعتبار سے اس روایت پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا البتہ روایت کے لحاظ سے اسے محل نظر ٹھہرایا گیا ہے ہمارے نزدیک زنا کی گندگی اور خرابی ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عمرو بن میمون کو اپنی نشانی دکھائی جسے انھوں نے آگے بیان کیا ہے حیوانات کے اندر بعض اوقات اس طرح کا ادراک ممکن ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ کے بیان کردہ واقعے سے معلوم ہوتا ہے 4حافظ ابن حجر نے اس احتمال کو بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بندر جن تھے جنھوں نے حیوانات کی شکل اختیار کر رکھی تھی اور جنات بھی انسانوں کی طرح شریعت کے مکلف ہیں اور ان پر حدود کا نفاذ کیا جاتا ہے جنوں کا وجود قرآن کریم سے ثابت ہے پھر جنوں کا حیوانات کی شکل اختیار کرنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ ایک جن نے سانپ کی شکل اختیار کر کے انصاری نوجوان کو مار دیا تھا۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث:5839۔(2236)) اگر بندر کی شکل اختیار کیے جن زنا کا ارتکاب کریں تو ان پر حد کیوں نہ جاری کی جائے جب کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرناصحیح و متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ بہر حال نقل روایت اور عقل و روایت کے اعتبار سے صحیح بخاری کی اس حدیث پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ منکرین حدیث تو اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ واللہ أعلم المستعان۔