Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: About Hudhaifa bin Al-Yaman)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3854.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب غزوہ اُحد میں مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگنے لگے تو ابلیس نے چلا کر کہا: اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں کو قتل کرو۔ آگے والے مسلمان پیچھے والے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور گھمسان کی جنگ ہونے لگی۔ اس دوران میں حضرت حذیفہ ؓ نے اپنے والد گرامی کو دیکھا (کہ مسلمان انہیں قتل کر رہے ہیں) توبہ آواز بلند کہا: اللہ کے بندو! یہ میرے والد گرامی ہیں۔ یہ میرے باپ ہیں۔ لیکن لوگ نہ رُکے حتی کہ انہوں نے ان کو قتل کر دیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی تمہیں معاف فرمائے۔ ہشام کے والد عروہ نے کہا: اللہ کی قسم! اس کے باعث ہمیشہ دعا کرتے رہتے حتی کہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔
تشریح:
1۔ ممکن ہے کہ ابلیس نے مشرکین کو آواز دے کر کہا ہو کہ تم اپنے پچھلے لوگوں پر حملہ کروجو مسلمان ہیں، لیکن اس سے مسلمان غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے۔ چونکہ وہ شدت کی لڑائی تھی اور اس میں غلطی سے حضرت حذیفہ ؓ کے والد محترم حضرت یمان ؓ مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے جنھوں نے اسے قتل کیاتھا وہ عقبہ بن مسعود ؓ تھے، حضرت حذیفہ ؓ نے انھیں معاف کردیا اور ان کے قاتل کے لیے ہمیشہ دعا اور استغفار کرتے رہے۔ 2۔ اس حدیث سے حضرت حذیفہ ؓ کے صبرواستقلال اور ان کی فہم وفراست کا پتہ چلتا ہے۔ 3۔ غلط فہمی سے انسان کیا سے کیا کر بیٹھتا ہے، اس لیے حکم ہے کہ ہر سنی سنائی بات کا یقین نہ کرو جب تک اس کی تحقیق نہ کرلو۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدان تھے۔منافقین کے متعلق انھیں پوری پوری معلومات تھیں۔ان کے والد یمان حسل بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مسلمان تھے۔غلط فہمی میں غزوہ احد میں مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے جس کا حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت افسوس ہوا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں مدائن کا حاکم بنایا۔انھوں نے 35 ہجری بمطابق 656ء میں وفات پائی۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب غزوہ اُحد میں مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگنے لگے تو ابلیس نے چلا کر کہا: اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں کو قتل کرو۔ آگے والے مسلمان پیچھے والے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور گھمسان کی جنگ ہونے لگی۔ اس دوران میں حضرت حذیفہ ؓ نے اپنے والد گرامی کو دیکھا (کہ مسلمان انہیں قتل کر رہے ہیں) توبہ آواز بلند کہا: اللہ کے بندو! یہ میرے والد گرامی ہیں۔ یہ میرے باپ ہیں۔ لیکن لوگ نہ رُکے حتی کہ انہوں نے ان کو قتل کر دیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی تمہیں معاف فرمائے۔ ہشام کے والد عروہ نے کہا: اللہ کی قسم! اس کے باعث ہمیشہ دعا کرتے رہتے حتی کہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ممکن ہے کہ ابلیس نے مشرکین کو آواز دے کر کہا ہو کہ تم اپنے پچھلے لوگوں پر حملہ کروجو مسلمان ہیں، لیکن اس سے مسلمان غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے۔ چونکہ وہ شدت کی لڑائی تھی اور اس میں غلطی سے حضرت حذیفہ ؓ کے والد محترم حضرت یمان ؓ مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے جنھوں نے اسے قتل کیاتھا وہ عقبہ بن مسعود ؓ تھے، حضرت حذیفہ ؓ نے انھیں معاف کردیا اور ان کے قاتل کے لیے ہمیشہ دعا اور استغفار کرتے رہے۔ 2۔ اس حدیث سے حضرت حذیفہ ؓ کے صبرواستقلال اور ان کی فہم وفراست کا پتہ چلتا ہے۔ 3۔ غلط فہمی سے انسان کیا سے کیا کر بیٹھتا ہے، اس لیے حکم ہے کہ ہر سنی سنائی بات کا یقین نہ کرو جب تک اس کی تحقیق نہ کرلو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہاہم سے سلمہ بن رجاء نے، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ احدکی لڑائی میں جب مشرکین ہار چکے تو ابلیس نے چلاکر کہا اے اللہ کے بندو ! پیچھے والوں کو (قتل کرو) چنانچہ آگے کے مسلمان پیچھے والوں پر پل پڑے اور انہیں قتل کرنا شروع کر دیا، حذیفہ ؓ نے جودیکھا تو ان کے والد (یمان ؓ بھی وہیں موجود تھے انہوں نے پکار کر کہا اے اللہ کے بندو یہ تو میرے والد ہیں میرے والد! عائشہ ؓ نے بیان کیا اللہ کی قسم! اس وقت تک لوگ وہاں سے نہیں ہٹے جب تک انہیں قتل نہ کرلیا، حذیفہ ؓ نے صرف اتنا کہا اللہ تمہاری مغفرت کرے، (ہشام نے بیان کیا کہ) اللہ کی قسم! حذیفہ ؓ برابریہ کلمہ دعائیہ کہتے رہے کہ اللہ ان کے والد پر حملہ کر نے والوں کو بخشے جو کہ محض غلط فہمی کی وجہ سے یہ حرکت کر بیٹھے یہ دعا مرتے دم تک کرتے رہے۔
حدیث حاشیہ:
اس سے ان کے صبر و استقلال اور فہم و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ غلط فہمی میں انسان کیا سے کیا کر بیٹھتا ہے۔ ا س لئے اللہ کا ارشاد ہے کہ ہر سنی سنائی خبر کا یقین نہ کرلیا کرو جب تک اس کی تحقیق نہ کر لو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): On the day of the battle of Uhud the pagans were defeated completely. Then Satan shouted loudly, "O Allah's slaves! Beware the ones behind you!" So the front files attacked the back ones. Then Hudhaifa looked and saw his father, and said loudly, "O Allah's slaves! My father! My father!" By Allah, they did not stop till they killed him (i.e. Hudaifa's father). Hudhaifa said, "May Allah forgive you!" The sub-narrator said, "By Allah, because of what Hudhaifa said, he remained in a good state till he met Allah (i.e. died)."