تشریح:
1۔حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ مشرکین مکہ نے کہا کہ ہم نے ایسے لوگوں کوقتل کیا ہے جن کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا تھا، یعنی انھوں نے خود اس بات کااعتراف کیا کہ ہم نے مسلمانوں کواس قدر اذیتیں دیں اور تکلیفوں سے دوچار کیا کہ انھیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔
2۔ حدیث میں مذکور مسئلے کی وضاحت اس طرح ہے کہ سورہ فرقان میں ارشاد باری تعالیٰ سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل ناحق کے بعداگر کوئی توبہ کرلے اور نیک اعمال بجا لائے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے گا، (الفرقان 70:25) جبکہ سورہ نساء کی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو کسی مسلمان کو عمداً قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ (النساء:93:4) بظاہر ان دو آیات میں تعارض ہے حضرت ابن عباس ؓ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی آیت کفار کے متعلق ہے اوردوسری آیت مسلمانوں سے متعلق ہے، لہذا شان نزول کے مختلف ہونے کی وجہ سے تعارض نہ رہا۔ لیکن یہ ان کی اپنی رائے ہے جسے جمور امت نےقبول نہیں کیا اور نہ ان کے شاگرد رشیدامام بخاری ؒ ہی نے اس سے اتفاق کیا ہے ۔جمہور اہل سنت کا موقف ہے کہ سورہ نساء کا حکم وعید کے طور پر ہے تاکہ لوگ قتل کرنے سے باز رہیں، البتہ قاتل کی توبہ بھی دوسرے گناہوں کی طرح مقبول ہے۔ اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔