تشریح:
1۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور پر گئے توتادبافرمان الٰہی صادر ہوا:﴿ إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴾ ’’بلا شبہ میں تمھارا رب ہوں، یقیناً (اس وقت )تم مقدس وادی میں ہو، لہٰذا اپنے جوتے اتارلو۔‘‘ ( فتح الباري:640/1) یہود نے اس حکم کو مطلق طور پر ممانعت پر محمول کیا جس کی بنا پر ان کے نزدیک کسی بھی صورت میں جوتوں سمیت نماز درست نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہود کی اس شدت کی اصلاح کرتے ہوئے مطلق جواز کو باقی رکھا اور فرمایا کہ یہود کی مخالفت کرو۔اور جوتوں میں نماز پڑھو۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 652) لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ جوتے پاک ہوں، کیونکہ ناپاکی کی صورت میں انھیں پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اگر انھیں نجاست لگی ہوتو دھونے کے بجائے صرف پاک مٹی سے صاف کر لینا ہی کافی ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ جوتوں سمیت نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک دوران نماز میں انھیں اتار دیا۔ آپ کی اتباع میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی جوتے اتار دیے ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے جوتے اتارنے کی وجہ دریافت فرمائی۔ انھوں نے عرض کیا کہ ہم نے تو آپ کی اتباع میں اتارے ہیں۔ آپ نے فرمایا : ’’مجھے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے بتایا تھا کہ آپ کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے، اس لیے میں نے انھیں اتار دیا، لہٰذا تم میں سے جب کوئی نماز کے لیے مسجد میں آئے تو اپنے جوتوں کو دیکھ لے۔ اگر نجاست آلود ہوں تو انہیں صاف کرکے ان میں نماز پڑھ لے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:650) 2۔ جوتے پہن کر نمازپڑھنے کی رخصت ضرور ہے، لیکن اسے درجہ استحباب دے کر دید ہ دانستہ صاف ستھری مساجد میں جوتوں سمیت نماز ادا کرنے پر اصرار انتہا پسندی ہے۔ ہمارے بعض شدت پسند نوجوان اسے ’’مردہ سنت‘‘ خیال کرکے اس کے احیا کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس فکری غلطی کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ شریعت نے اس عمل کو صرف جائز قراردیا ہے۔ بذات خود یہ مطلوب نہیں۔ صرف یہود کے عمل سے اختلاف ظاہر کرنے کی صورت میں اسے استحباب کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ یہ عمل رخصت ضرور ہے، لیکن اسے مستحب نہیں قراردیا جا سکتا، کیونکہ نماز کے لیے یہ عمل بذات خود مطلوب نہیں، جوتے پہننا اگرچہ ملا بس زینت سے ہے، لیکن زمین پر چلتے وقت ان کے نجاست آلود ہونے کی وجہ سے انھیں رتبہ مطلوب حاصل نہیں ہو سکا اور جب مصلحت تحسین اور ازالہ نجاست کا تعارض ہو تو ازالہ نجاست کی رعایت کرتے ہوئے انھیں جلب مصالح کے بجائے دفع مفاسد ہی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی خاص دلیل آجائے جس کے پیش نظر اس کا تحمل راجح قرار پائے تو اس قیاس کا ترک صحیح ہو سکتا ہے۔ البتہ مخالفت یہود کے پیش نظر اسے استحباب پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر یہ عمل صرف مباح اور جواز کی حد تک صحیح ہے۔ ( فتح الباري:640/1) عہد نبوی میں مساجد کی حالت اور اس وقت کے جوتوں کی نوعیت اور ہمارے دور کی بودو باش اور طرز معاشرت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امام بخاریؒ نے مستقل ایک عنوان قائم کیا کہ حالات و ظروف کے پیش نظر بعض اوقات اپنے کسی پسندیدہ عمل کو ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ (صحیح البخاري، کتاب العلم، باب:48) 3۔ حافظ ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر میں حضرت انس ؓ سے مرفوعاً ایک روایت نقل کی ہے کہ ﴿ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ کی تفسیر یہ ہے کہ جوتوں سمیت نماز پڑھو لیکن روایت ذکر کرنے کے بعد اس کی صحت کو محل نظر قراردیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس کی سند انتہائی کمزور ہے۔ ( فتح الباري:640/1)