صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
21. باب: کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھنا
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
21. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الخُمْرَةِ
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
21. Chapter: To offer As-Salat (the prayers) on a Khumra (a small mat, hardly sufficient for the face and hands while prostrating during Salat)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer As-Salat (the prayers) on a Khumra (a small mat, hardly sufficient for the face and hands while prostrating during Salat))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
386.
حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ چھوٹی چٹائی پر نماز ادا کرتے تھے۔
تشریح:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ ان عنوانات سے ایک شبہے کا ازالہ فرمانا چاہتے ہیں، حدیث میں ہے کہ میرے لیے مٹی کو مسجد اور طہور بنادیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک صحابی نے سجدے کے لیے پھونک مار کر مٹی کو اڑانا چاہا تو آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کر بلکہ اپنی پیشانی کو خاک آلود کر۔ ان روایات سے شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید مٹی کے علاوہ کسی دوسری چیز پر سجدہ جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ اس کی نفی کر رہے ہیں کہ زمین پر سجدہ ضروری نہیں، بلکہ بوریا چٹائی اور دوسرے کسی بھی طرح کے پاک فرش پر سجدہ کرنا جائز ہے۔2۔ اس روایت سے پہلے حضرت میمونہ ؓ کی حدیث میں خمرہ پرنماز پڑھنے کا ذکر آچکا تھا۔ یہاں مستقل عنوان قائم کر کے اس حدیث کو پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری کا مقصد اختلاف سند استخراج مسائل اور مقصود شیخ کا بیان ہے کہ ہر شیخ کا حدیث بیان کرنے کا الگ مقصد ہونا ہے۔ اس سے پہلے امام بخاری کے شیخ مسدد نے اس حدیث کو مطول بیان کیا تھا اور اب ان کے دوسرے شیخ ابو لولید نے اپنے خاص مقصد کے پیش نظر اسے اتنا ہی مختصر بیان کیا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے یہ مسئلہ ضمناً معلوم ہوا تھا یہاں اہمیت کے پیش نظر اسے مستقل عنوان کے تحت لائے ہیں۔ واللہ أعلم۔ 3۔ امام بخاری ؒ کا اس تالیف سے مقصود جمع احادیث ہی نہیں، بلکہ اس کے علاوہ اختلاف سند استنباط مسائل اور استخراج احکام بھی ہے، پھر کہیں تفصیل اور کہیں اختصار پیش نظر رکھا ہے۔ جیسا کہ الصلاة علی النفساء کے عنوان میں حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے مروی ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک نفاس والی عورت کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔ پھر اس کے بعد ایک مستقل عنوان قائم کیا، یعنی عورت کے جنازے میں کہاں کھڑا ہونا چاہیے؟اس عنوان کے ثبوت کے لیے پھر حدیث سمرہ پیش کی، لیکن اس کی سند دوسری لائے ہیں۔ اس باب میں مستقل طور پر بیان فرمایا کہ اگر میت عورت ہو تو اس کے جنازے کے لیے درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
379
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
381
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
381
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
381
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
خمرہ اس چٹائی کو کہتے ہیں کہ اگر اس پر سجدہ کیا جائے تو کھڑے ہونے کی جگہ باقی نہ بچے اور اگر اس پر کھڑے ہو جائیں تو اس پر سجدہ نہ ہو سکے۔ اس کا مقصد بحالت سجود ہاتھ اور پیشانی کا تحفظ ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر نمازی چٹائی پر نماز ادا کرے تو ضروری نہیں کہ اس کا ہر جز چٹائی ہی پر ہو بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ کچھ حصہ چٹائی پر ہو اور کچھ حصہ زمین پر۔ دونوں طرح جائز ہے۔
حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ چھوٹی چٹائی پر نماز ادا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ ان عنوانات سے ایک شبہے کا ازالہ فرمانا چاہتے ہیں، حدیث میں ہے کہ میرے لیے مٹی کو مسجد اور طہور بنادیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک صحابی نے سجدے کے لیے پھونک مار کر مٹی کو اڑانا چاہا تو آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کر بلکہ اپنی پیشانی کو خاک آلود کر۔ ان روایات سے شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید مٹی کے علاوہ کسی دوسری چیز پر سجدہ جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ اس کی نفی کر رہے ہیں کہ زمین پر سجدہ ضروری نہیں، بلکہ بوریا چٹائی اور دوسرے کسی بھی طرح کے پاک فرش پر سجدہ کرنا جائز ہے۔2۔ اس روایت سے پہلے حضرت میمونہ ؓ کی حدیث میں خمرہ پرنماز پڑھنے کا ذکر آچکا تھا۔ یہاں مستقل عنوان قائم کر کے اس حدیث کو پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری کا مقصد اختلاف سند استخراج مسائل اور مقصود شیخ کا بیان ہے کہ ہر شیخ کا حدیث بیان کرنے کا الگ مقصد ہونا ہے۔ اس سے پہلے امام بخاری کے شیخ مسدد نے اس حدیث کو مطول بیان کیا تھا اور اب ان کے دوسرے شیخ ابو لولید نے اپنے خاص مقصد کے پیش نظر اسے اتنا ہی مختصر بیان کیا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے یہ مسئلہ ضمناً معلوم ہوا تھا یہاں اہمیت کے پیش نظر اسے مستقل عنوان کے تحت لائے ہیں۔ واللہ أعلم۔ 3۔ امام بخاری ؒ کا اس تالیف سے مقصود جمع احادیث ہی نہیں، بلکہ اس کے علاوہ اختلاف سند استنباط مسائل اور استخراج احکام بھی ہے، پھر کہیں تفصیل اور کہیں اختصار پیش نظر رکھا ہے۔ جیسا کہ الصلاة علی النفساء کے عنوان میں حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے مروی ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک نفاس والی عورت کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔ پھر اس کے بعد ایک مستقل عنوان قائم کیا، یعنی عورت کے جنازے میں کہاں کھڑا ہونا چاہیے؟اس عنوان کے ثبوت کے لیے پھر حدیث سمرہ پیش کی، لیکن اس کی سند دوسری لائے ہیں۔ اس باب میں مستقل طور پر بیان فرمایا کہ اگر میت عورت ہو تو اس کے جنازے کے لیے درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے سلیمان شیبانی نے عبداللہ بن شداد کے واسطے سے، انھوں نے ام المؤمنین میمونہ ؓ سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ سجدہ گاہ ( یعنی چھوٹے مصلے ) پر نماز پڑھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
''قَالَ الْجَوْهَرِيُّ: بِالضَّمِّ: سَجَّادَةٌ صَغِيرَةٌ تُعْمَلُ مِنْ سَعَفِ النَّخْلِ بِالْخُيُوطِ. وَقَالَ الْخَطَّابِيِّ: الْخَمْرَةُ السَّجَّادَةُ، وَكَذَا قَالَ صَاحِبُ الْمَشَارِقِ، قَالَ: وَهِيَ عَلَى قَدْرِ مَا يَضَعُ عَلَيْهِ الْوَجْهَ وَالْأَنْفَ. وَقَالَ صَاحِبُ النِّهَايَةِ: هِيَ مِقْدَارُ مَا يَضَعُ عَلَيْهِ الرَّجُلُ وَجْهَهُ فِي سُجُودِهِ مِنْ حَصِيرٍ أَوْ نَسِيجَةِ خُوصٍ وَنَحْوِهِ مِنْ الثِّيَابِ، وَلَا يَكُونُ إلَّا فِي هَذَا الْمِقْدَارِ۔''(نیل، ج ،2،ص: 129)’’خلاصہ یہ کہ خمرہ چھوٹے مصلے پر بولاجاتا ہے وہ کھجور کا ہو یا کسی اور چیز کا اور حیصر طویل بوریا، ہردو پر نماز جائز ہے، یہاں بھی حضرت امام قدس سرہ ان لوگوں کی تردید کررہے ہیں جو سجدہ کے لیے زمین کی مٹی کو شرط قراردیتے ہیں۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Maimuna (RA): Allah's Apostle (ﷺ) used to pray on Khumra.