تشریح:
1۔حضرت عمر ؓ کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر امت کا کوئی نہ کوئی محدث ہوا ہے ،میری امت میں اگر کوئی محدث ہے تو وہ عمر ؓ ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3689۔)
2۔ واقعی حضرت عمر ؓ جو بات کہتے وہ ہوجاتی جیسا کہ شروع حدیث میں حضرت ابن عمر ؓ نے ان کے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔حضرت عمر ؓ نے اس خوبصورت شخص کے متعلق جس گمان کا اظہار کیا وہ اسی طرح تھا، چنانچہ اس نے اقرار بھی کیا۔ ایک دن حضرت عمر نے اس شخص سے خوش طبعی کے طور پر فرمایا: اب تیرے جن کا کیاحال ہے؟ وہ غصے سے بھر گیا اور کہنے لگا: اے عمر! تم زمانہ جاہلیت میں جو شرک وغیرہ کرتے تھے وہ میرے پیشے کہانت سے زیادہ بُرا تھا۔ آپ مجھے کیوں شرمندہ کرتے ہیں جس سے میں اب تائب ہوچکا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اس کی بخشش کا امید وار ہوں۔
3۔ اس جن سے اس آدمی نے جو گفتگو کی تھی اس کا مطلب یہ تھا آخر الزمان نبی (صلی اللہ علیه وسلم) کا ظہور ہونے والاہے۔ تمام جن عربوں کے تابع ہوجائیں گے اور ان کے دین کی پیروی کریں گے کیونکہ وہ نبی جنوں اور انسانوں دونوں کے لیے ہے۔
4۔ کہا جاتا ہے کہ یہی واقعہ حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے کا باعث ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس واقعے کو اسلام عمر کے زیر عنوان بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:229/7۔) واللہ اعلم۔