تشریح:
1۔ شیعہ حضرات کے نزدیک موزوں پر مسح کرنا اور انہیں پہن کر نماز پڑھنا درست نہیں۔ امام بخاری ؒ نے ثابت فرمایا کہ موزے پہن کر نماز پڑھنا درست ہے۔ گرمی اور سردی سے پاؤں کی حفاظت کا یہ دوسرا طریقہ ہے کہ زمین اور پاؤں کے درمیان موزوں کو حائل کردیا جائے ۔ سورہ مائدہ میں آیت وضو کے نزول کے بعد بعض صحابہ کو شبہ ہو گیا تھا کہ شاید اب مسح کی اجازت منسوخ ہو چکی ہےاور پاؤں ہر حالت میں دھونے پڑیں گے۔ جب حضرت جریر ؓ نے یہ واقعہ بیان کیا تو لوگوں نے ان سے کہا کہ مسح کا حکم تو نزول سورہ مائدہ سے پہلے کا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تو اسلام ہی سورہ مائدہ کے نزول کے بعد لایا ہوں ۔ بعض روایات میں ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام لائے۔ (فتح الباري:641/1) اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ حضرات نے جو آیت مائدہ کا مفہوم اس طرح متعین کیا ہے کہ پاؤں پر ہر حالت میں مسح کرنا چاہیے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ اسی طرح خوارج کا تشدد بھی درست نہیں. 2۔ محمد بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے جب حضرت جریر ؓ کو موزوں پر مسح کر کے ان میں نماز پڑھتے دیکھا۔ نیز سوال کرنے پر انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق اپنا مشاہدہ بیان کیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ مشاہدہ نزول سورہ مائدہ سے پہلے کا ہے یا بعد کا؟ انھوں نے فرمایا: میں تو مسلمان ہی نزول سورہ مائدہ کے بعد ہوا ہوں۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 94) اس حدیث پر امام ترمذی ؒ بایں الفاظ تبصرہ کرتے ہیں: اس حدیث نے خوب وضاحت کردی ہے، کیونکہ جو لوگ موزوں پر مسح کرنے سے انکار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ موزوں پر مسح کی رخصت نزول سورہ مائدہ سے پہلے تھی، لیکن حضرت جریر ؓ کے عمل سے وضاحت ہو گئی کہ سورہ مائدہ میں وضو کے وقت پاؤں دھونے کا جو ذکر ہے، اس سے موزوں پر مسح کرنے کا عمل منسوخ نہیں ہوا بلکہ یہ حکم آخر وقت تک باقی رہا۔
نوٹ: حدیث مغیرہ بن شعبہ ؓ سے متعلقہ دیگر فوائد گزشتہ حدیث :182۔ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔