قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ (بَابُ هِجْرَةِ الحَبَشَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَتْ عَائِشَةُ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ، ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لاَبَتَيْنِ» فَهَاجَرَ مَنْ هَاجَرَ قِبَلَ المَدِينَةِ، وَرَجَعَ عَامَّةُ مَنْ كَانَ هَاجَرَ بِأَرْضِ الحَبَشَةِ إِلَى المَدِينَةِ فِيهِ عَنْ أَبِي مُوسَى، وَأَسْمَاءَ، عَنِ النَّبِيِّﷺ

3872. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَنَا عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ أَخْبَرَهُ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ قَالَا لَهُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُكَلِّمَ خَالَكَ عُثْمَانَ فِي أَخِيهِ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ وَكَانَ أَكْثَرَ النَّاسُ فِيمَا فَعَلَ بِهِ قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَانْتَصَبْتُ لِعُثْمَانَ حِينَ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً وَهِيَ نَصِيحَةٌ فَقَالَ أَيُّهَا الْمَرْءُ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ فَانْصَرَفْتُ فَلَمَّا قَضَيْتُ الصَّلَاةَ جَلَسْتُ إِلَى الْمِسْوَرِ وَإِلَى ابْنِ عَبْدِ يَغُوثَ فَحَدَّثْتُهُمَا بِالَّذِي قُلْتُ لِعُثْمَانَ وَقَالَ لِي فَقَالَا قَدْ قَضَيْتَ الَّذِي كَانَ عَلَيْكَ فَبَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ مَعَهُمَا إِذْ جَاءَنِي رَسُولُ عُثْمَانَ فَقَالَا لِي قَدْ ابْتَلَاكَ اللَّهُ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ مَا نَصِيحَتُكَ الَّتِي ذَكَرْتَ آنِفًا قَالَ فَتَشَهَّدْتُ ثُمَّ قُلْتُ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ وَكُنْتَ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَآمَنْتَ بِهِ وَهَاجَرْتَ الْهِجْرَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ وَصَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتَ هَدْيَهُ وَقَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ فِي شَأْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ فَحَقٌّ عَلَيْكَ أَنْ تُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدَّ فَقَالَ لِي يَا ابْنَ أَخِي آدْرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُلْتُ لَا وَلَكِنْ قَدْ خَلَصَ إِلَيَّ مِنْ عِلْمِهِ مَا خَلَصَ إِلَى الْعَذْرَاءِ فِي سِتْرِهَا قَالَ فَتَشَهَّدَ عُثْمَانُ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ وَكُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَآمَنْتُ بِمَا بُعِثَ بِهِ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ كَمَا قُلْتَ وَصَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ وَبَايَعْتُهُ وَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ اسْتَخْلَفَ اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ ثُمَّ اسْتُخْلِفَ عُمَرُ فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ ثُمَّ اسْتُخْلِفْتُ أَفَلَيْسَ لِي عَلَيْكُمْ مِثْلُ الَّذِي كَانَ لَهُمْ عَلَيَّ قَالَ بَلَى قَالَ فَمَا هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي تَبْلُغُنِي عَنْكُمْ فَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ شَأْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ فَسَنَأْخُذُ فِيهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِالْحَقِّ قَالَ فَجَلَدَ الْوَلِيدَ أَرْبَعِينَ جَلْدَةً وَأَمَرَ عَلِيًّا أَنْ يَجْلِدَهُ وَكَانَ هُوَ يَجْلِدُهُ وَقَالَ يُونُسُ وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَفَلَيْسَ لِي عَلَيْكُمْ مِنْ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِي كَانَ لَهُمْ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ مَا ابْتُلِيتُمْ بِهِ مِنْ شِدَّةٍ وَفِي مَوْضِعٍ الْبَلَاءُ الِابْتِلَاءُ وَالتَّمْحِيصُ مَنْ بَلَوْتُهُ وَمَحَّصْتُهُ أَيْ اسْتَخْرَجْتُ مَا عِنْدَهُ يَبْلُو يَخْتَبِرُ مُبْتَلِيكُمْ مُخْتَبِرُكُمْ وَأَمَّا قَوْلُهُ بَلَاءٌ عَظِيمٌ النِّعَمُ وَهِيَ مِنْ أَبْلَيْتُهُ وَتِلْكَ مِنْ ابْتَلَيْتُهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

´اور عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ` نبی کریم ﷺنے فرمایا مجھے تمہاری ہجرت کی جگہ (خواب میں) دکھائی گئی ہے، وہاں کھجوروں کے باغ بہت ہیں وہ جگہ دو پتھریلے میدانوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ جنہوں نے ہجرت کر لی تھی وہ مدینہ ہجرت کر کے چلے گئے بلکہ جو مسلمان حبشہ ہجرت کر گئے تھے وہ بھی مدینہ واپس چلے آئے۔ اس بارے میں ابوموسیٰ اور اسماء بنت عمیس کی روایات نبی کریمﷺسے مروی ہیں۔جب مکہ کے کافروں نے مسلمانوں کو بے حد ستانا شروع کیا اور مسلمانوں میں مقابلہ کی طاقت نہ تھی تو آنحضرتﷺمسلمانوں کو ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی اور حکم دیا کہ تم اسلام کا غلبہ ہونے تک وہاں رہو یہ ہجرت دوبارہ ہوئی پہلے حضرت عثمانؓ نے اپنی بیوی حضرت رقیہؓ کو لے کر ہجرت کی۔(ان تینوں حدیثوں کو خود امام بخاری نے وصل کیا ہے حضرت عائشہکی حدیث کو باب الھجرت الی المدینہ میں اور ابو موسیٰ کی حدیث کو اسی باب میں اور اسماءؓ کی حدیث کو غزوۂ حنین میں۔

3872.

3902. 

حضرت عبیداللہ بن عدی بن خیار سے روایت ہے، ان سے مسور بن مخرمہ اور عبدلرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث ؓ نے کہا کہ تمہیں اپنے ماموں حضرت عثمان ؓ سے ان کے بھائی ولید بن عقبہ کے متعلق گفتگو کرنے سے کون منع کرتا ہے؟ لوگ اس بارے میں بکثرت چہ مگوئیاں کر رہے ہیں۔ عبیداللہ بیان کرتے ہیں کہ جب عثمان ؓ نماز کے لیے باہر نکلے تو میں ان کے راستے میں کھڑا ہو گیا اور ان سے عرض کیا کہ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے اور کوئی خیرخواہی کی بات کرنی ہے؟ حضرت عثمان ؓ نے ان سے کہا: بھلے آدمی! میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ یہ سن کر میں وہاں سے واپس آ گیا۔ جب میں نماز پڑھ چکا تو مسور اور ابن عبد یغوث ؓ کے پاس بیٹھ گیا اور ان سے وہ گفتگو کی جو عثمان ؓ سے میں نے کی اور جو انہوں نے مجھ سے کہا تھا۔ ان دونوں نے کہا کہ تم نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ اس دوران میں جب میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ میرے پاس حضرت عثمان ؓ کا قاصد آ گیا۔ ان دونوں نے مجھے کہا کہ تمہیں اللہ تعالٰی نے امتحان میں ڈالا ہے۔ آخر میں وہاں سے چلا اور حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ انہوں نے فرمایا: وہ کون سی خیرخواہی تھی جس کا ذکر آپ نے ابھی کیا تھا؟ میں نے تشہد پڑھا اور ان سے عرض کیا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت محمد ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا، آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو قبول کیا اور آپ پر ای ن لائے، پہلی دو ہجرتیں کیں اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہ کر آپ کی سیرت اور طریقے کو دیکھا ہے۔ بات یہ ہے کہ ولید بن عقبہ کے بارے میں لوگ بہت باتیں کرتے ہیں، لہذا آپ پر ضروری ہے کہ اس پر حد قائم کریں۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! کیا تو نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کے علم میں سے میرے پاس اتنا ضروری علم پہنچ چکا ہے جس قدر ایک کنواری لڑکی کو اس کے پردے میں پہنچتا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے خطبہ پڑھا اور فرمایا: بےشک اللہ نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر مبعوث کیا۔ ان پر اپنی کتاب نازل کی۔ اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا اور اس حق پر ایمان لایا جو رسول اللہ ﷺ کو دے کر بھیجا گیا تھا اور پہلی دو ہجرتیں کیں جیسا کہ تو نے کہا ہے۔ بلاشبہ میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہا اور آپ سے بیعت کی۔ اللہ کی قسم! نہ تو میں نے آپ کی نافرمانی کی اور نہ آپ سے کوئی دھوکا فریب ہی کیا حتی کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو وفات دی۔ پھر اللہ تعالٰی نے ابوبکر ؓ کو خلیفہ بنایا۔ اللہ کی قسم! میں نے کبھی ان کی نافرمانی نہ کی اور نہ انہیں کوئی دھوکا فریب ہی دیا۔ پھر حضرت عمر ؓ کو منتخب کر لیا گیا تو اللہ کی قسم! میں نے ان کی بھی نافرمانی نہ کی اور نہ ان سے دھوکا فراڈ ہی کیا۔ پھر مجھے خلیفہ بنایا گیا تو کیا میرا تم پر اتنا بھی حق نہیں جتنا ان کا مجھ پر تھا؟ عبیداللہ نے کہا: کیوں نہیں، پھر انہوں نے فرمایا: ان باتوں کی کیا حقیقت ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچ رہی ہیں؟ جہاں تک تم نے ولید بن عقبہ کے بارے میں ذکر کیا ہے تو ہم ان شاءاللہ اس معاملے میں حق کے ساتھ اس کی گرفت کریں گے۔ پھر آپ نے ولید بن عقبہ کو چالیس کوڑے مارنے کا حکم دیا اور حضرت علی ؓ سے کہا کہ وہ اسے کوڑے لگائیں۔ حضرت علی ؓ ہی کوڑے مارا کرتے تھے۔ اس حدیث کو یونس اور زہری کے بھتیجے نے بھی زہری سے بیان کیا ہے۔ اس روایت میں حضرت عثمان ؓ کا قول بایں الفاظ بیان ہوا ہے: کیا تم لوگوں پر میرا وہی حق نہیں ہے جو ان لوگوں کا تم پر تھا؟! ابو عبداللہ (امام بخاری) نے فرمایا: ﴿بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ﴾ کا مطلب ہے کہ جس شدت اور تنگی میں ڈال کر تمہیں آزمایا گیا۔ اور (ابوعبیدہ نے) ایک جگہ مقام پر کہا کہ بلاء کے معنی ابتلاء اور تمحیص کے ہیں، یعنی جو اس کے پاس تھا وہ میں نے نکالا۔ يبلو کے معنی وہ آزماتا ہے۔ اور ﴿مُبْتَلِيكُم﴾ کے معنی ہیں وہ تمہارا امتحان لینے والا ہے۔ اور جہاں تک بلائے عظیم کا تعلق ہے تو اس میں بلاء سے مراد نعمتیں ہیں۔ جب یہ نعمت کے معنی میں ہو تو ابليته سے ہو گا۔ اور امتحان کے معنی میں اس صورت میں ہو گا جب ابتليته سے ہو گا، یعنی اگر آپ کہنا چاہیں کہ میں نے اس پر انعام کیا تو آپ کہیں گے ابتليته اور اگر کہنا چاہیں کہ میں نے اس کا امتحان لیا تو کہیں گے۔ ابتليته۔