Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer As-Salat (the prayers) on the bed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور انس بن مالک ؓ نے اپنے بچھونے پر نماز پڑھی اور فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے پھر ہم میں سے کوئی اپنے کپڑے پر سجدہ کر لیتا تھا۔
388.
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اہل کے بستر پر نماز پڑھتے جبکہ وہ خود آپ کے اور قبلے کے درمیان جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھیں۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس باب میں ثابت کیا ہے کہ جس طرح نماز زمین یا اس کی جنس پر درست ہے غیر جنس ارض پر بھی درست ہے، خواہ وہ بستر ہو یا کوئی فرش قطع نظر اس سے کہ وہ بہترین ہو یا گھٹیا، چونکہ بعض اسلاف سے ان پر نماز پڑھنے کا انکار ثابت ہے، وہ عمدہ قالین یا وہ بستر جس میں روئی زیادہ ہو ان پر نماز ادا کرنا مکروہ قراردیتے تھے۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے یہ روایت لا کر ان کے موقف کی تردید كی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ اگرچہ بعض حضرات تاویل کرتے ہیں کہ پاؤں کو دباتے وقت اس پر کپڑا ہوتا تھا، لیکن یہ تاویل بعید ہے۔ پہلی حدیث میں بستر پر نماز پڑھنے کی صراحت نہ تھی۔ اس لیے دوسری روایت پیش کی کہ آپ بستر پر نماز پڑھتے تھے۔ اگرچہ اُم المومنین عائشہ ؓ کے آگے لیٹنے میں اشارہ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ سونے کے بستر پر نماز پڑھ رہے تھے، تاہم تیسری روایت میں اس کی بھی صراحت موجود ہے۔ مقصد یہ ہے کہ پیشانی زمین پر رکھنا ضروری نہیں، البتہ پاؤں کا جمانا اور ہاتھوں اور پیشانی کا کسی پاک چیز پر ٹکانا ضروری ہے، ہاں ایسے بستر یا قالین جو زیب و زینت کی وجہ سے دل کو اپنی طرف متوجہ کردیں ان پر نماز ادا کرنا پسندیدہ نہیں، تاہم اگر ان پر نماز پڑھ لی جائے تو فرض ادا ہو جائے گا۔ حضرت عائشہ ؓ اپنے اس معمول کے متعلق ایک عذر پیش کرتی ہیں کہ اس وقت مکانوں میں چراغ نہ تھے، کیونکہ چراغ ہونے کی صورت میں مجھے پتہ چل جاتا کہ آپ کس وقت سجدے میں جا رہے ہیں، اس وقت میں خود ہی پاؤں سمیٹ لیتی، لیکن اندھیرے کے سبب کچھ نظر ہی نہ آتا تھا، اس لیے آپ کو پاؤں دبانے کی ضرورت پیش آتی۔ 2۔ بعض احادیث کے مطابق حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے بستروں میں نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:368) امام بخاری ؒ نے یہ روایت پیش کر کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ چنانچہ امام ابو داؤد ؒ نے اس روایت کے بعد اس کے ناقابل حجت ہونے کی علت بھی بیان کی ہے۔ اگر ایسی روایات صحیح ہیں تو امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایات کے مقابلے میں وہ شاذ اور مردود قرارپائیں گی۔ (فتح الباري:637/1) 3۔ ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سوئے ہوئے آدمی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا مکروہ نہیں بلکہ جائز ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
381
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
383
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
383
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
383
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
فراش ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو زمین پر بچھائی جائے ،خواہ وہ چھوٹی ہویابڑی دری ہو یا کلین گدا ہو یا لحاف پہلے حصیر اور خمرہ کا جواز بتلایا تھا اب مزید توسیع فرماتے ہیں کہ کسی بھی پاک چیز کو زمین پر بچھا کر نماز پڑھی جا سکتی ہےاس کے لیے جنس ارض ہونا ضروری نہیں۔چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق روایات میں ہے انھوں نے اپنے بستر پر نماز پڑھی تھی۔اس روایت کو ابن ابی شیبہ (2/129)وغیرہ نے موصولاً بیان کیا ہے اور اسی طرح حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوسرے اثر کو خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آئندہ موصولاً بیان کریں گے۔
اور انس بن مالک ؓ نے اپنے بچھونے پر نماز پڑھی اور فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے پھر ہم میں سے کوئی اپنے کپڑے پر سجدہ کر لیتا تھا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اہل کے بستر پر نماز پڑھتے جبکہ وہ خود آپ کے اور قبلے کے درمیان جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس باب میں ثابت کیا ہے کہ جس طرح نماز زمین یا اس کی جنس پر درست ہے غیر جنس ارض پر بھی درست ہے، خواہ وہ بستر ہو یا کوئی فرش قطع نظر اس سے کہ وہ بہترین ہو یا گھٹیا، چونکہ بعض اسلاف سے ان پر نماز پڑھنے کا انکار ثابت ہے، وہ عمدہ قالین یا وہ بستر جس میں روئی زیادہ ہو ان پر نماز ادا کرنا مکروہ قراردیتے تھے۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے یہ روایت لا کر ان کے موقف کی تردید كی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ اگرچہ بعض حضرات تاویل کرتے ہیں کہ پاؤں کو دباتے وقت اس پر کپڑا ہوتا تھا، لیکن یہ تاویل بعید ہے۔ پہلی حدیث میں بستر پر نماز پڑھنے کی صراحت نہ تھی۔ اس لیے دوسری روایت پیش کی کہ آپ بستر پر نماز پڑھتے تھے۔ اگرچہ اُم المومنین عائشہ ؓ کے آگے لیٹنے میں اشارہ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ سونے کے بستر پر نماز پڑھ رہے تھے، تاہم تیسری روایت میں اس کی بھی صراحت موجود ہے۔ مقصد یہ ہے کہ پیشانی زمین پر رکھنا ضروری نہیں، البتہ پاؤں کا جمانا اور ہاتھوں اور پیشانی کا کسی پاک چیز پر ٹکانا ضروری ہے، ہاں ایسے بستر یا قالین جو زیب و زینت کی وجہ سے دل کو اپنی طرف متوجہ کردیں ان پر نماز ادا کرنا پسندیدہ نہیں، تاہم اگر ان پر نماز پڑھ لی جائے تو فرض ادا ہو جائے گا۔ حضرت عائشہ ؓ اپنے اس معمول کے متعلق ایک عذر پیش کرتی ہیں کہ اس وقت مکانوں میں چراغ نہ تھے، کیونکہ چراغ ہونے کی صورت میں مجھے پتہ چل جاتا کہ آپ کس وقت سجدے میں جا رہے ہیں، اس وقت میں خود ہی پاؤں سمیٹ لیتی، لیکن اندھیرے کے سبب کچھ نظر ہی نہ آتا تھا، اس لیے آپ کو پاؤں دبانے کی ضرورت پیش آتی۔ 2۔ بعض احادیث کے مطابق حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے بستروں میں نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:368) امام بخاری ؒ نے یہ روایت پیش کر کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ چنانچہ امام ابو داؤد ؒ نے اس روایت کے بعد اس کے ناقابل حجت ہونے کی علت بھی بیان کی ہے۔ اگر ایسی روایات صحیح ہیں تو امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایات کے مقابلے میں وہ شاذ اور مردود قرارپائیں گی۔ (فتح الباري:637/1) 3۔ ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سوئے ہوئے آدمی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا مکروہ نہیں بلکہ جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ نے اپنے بستر پر نماز پڑھی، نیز حضرت انس ؓ نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے تو ہم میں سے کوئی اپنے کپڑے پر سجدہ کر لیتا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے عقیل سے، انھوں نے ابن شہاب سے، ان کو عروہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ ؓ نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر کے بچھونے پر نماز پڑھتے اور حضرت عائشہ ؓا آپ کے اور قبلہ کے درمیان اس طرح لیٹی ہوتیں جیسے ( نماز کے لیے ) جنازہ رکھا جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اوپر والی حدیث میں بچھونے کا لفظ نہ تھا، اس حدیث سے وضاحت ہوگئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah Apostle (ﷺ) prayed while I was lying like a dead body on his family bed between him and his Qibla.