Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To prostrate on a garment in scorching heat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حسن بصری نے کہا کہ لوگ عمامہ اور کنٹوپ پر سجدہ کیا کرتے تھے اور ان کے دونوں ہاتھ آستینوں میں ہوتے۔
390.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھا کرتے تھے تو ہم میں سے کوئی شخص سخت گرمی کی وجہ سے سجدے کی جگہ پر اپنے کپڑے کا کنارہ بچھا لیتا تھا۔
تشریح:
1۔ جمہور محدثین کے نزدیک طرف الثوب کے یہی معنی ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ثوب ملبوس کے فاضل حصے پر سجدہ کرتے تھے۔ 2۔ امام شافعی ؒ ثوب ملبوس کے فاضل حصے پر سجدے کی اجازت نہیں دیتے، کیونکہ ایسا کپڑا نمازی کے ساتھ نماز میں شامل ہے، گویا وہ نمازی کے بدن کا حصہ ہے، اس لیے ایسے ثوب ملبوس پر سجدہ زمین پر سجدہ نہیں۔ بلکہ اپنے حصے پر سجدہ ہے جس کی اجازت نہیں۔ ان کےنزدیک طرف الثوب سے مراد یا تو وہ کپڑا ہے جو نماز کے بدن پر نہ ہو اگر بدن پر نہ ہو اگر بدن پر ہو تو وہ اتنی گنجائش رکھتا ہو کہ اس کا سجدے کی جگہ پر ڈالا گیا حصہ نمازی کی حرکت سے متحرک نہ ہو لیکن جمہور کے نزدیک سجدے میں نماز کا پہنا ہوا کپڑا اور دوسرے کپڑے میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ اس دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی مجموعی حالت یہ تھی کہ ان کے پاس تو پہننے کے کپڑے بھی پورے نہ تھے چہ جائیکہ فاضل کپڑے ہوں جنھیں محل سجدہ میں ڈال لیا کریں اور نہ بدن کے کپڑے میں اتنی کشادگی کا امکان ہی ہے کہ نمازی کی حرکت سے وہ متحرک نہ ہو۔ اس لیے یہ فرق قابل قبول نہیں۔ عنوان میں حضرت حسن بصری ؒ کے اثر سے جمہور کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
383
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
385
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
385
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
385
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سخت گرمی کا ذکر الفاظ حدیث کی رعایت سے کیا ہے کیونکہ اگر زمین شدت گرمی سے تپ رہی ہو یا سخت سردی کی وجہ سے برف بن گئی ہو تو دونوں صورتوں میں زمین میں کپڑا ڈالنے کی اجازت ہے خواہ زمین پر کپڑا ڈال لیا جائے یا پیشانی پر کپڑا ڈال کر سجدہ کر لیا جائے۔ خواہ کپڑا الگ سے بچھا یا جائے یا پہنے ہوئے کپڑے کا خاص حصہ زمین پر بچھا دیا جائے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے اثر کو محدث عبد الرزاق نے اپنی مصنف (1/400)میں باسند بیان کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب سجدہ کرتے تھے تو ان کے ہاتھ ان کےکپڑوں میں ہوتے اور کچھ حضرات تو اپنی پگڑی اور ٹوپی پر سجدہ کرتے۔اس اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ(2/117)میں بھی موصولاً بیان کیا گیا ہے(فتح الباری:1/639۔)ہاتھ کے آستین میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ گرمی سے پیشانی کی حفاظت تو پگڑی یا ٹوپی سے کی جاتی اور ہاتھوں کی حفاظت آستین سے کی جاتی یعنی آستین کو آگے بڑھا کر اس پر ہاتھ رکھ لیے جاتے۔ چونکہ عمامہ اور ٹوپی ثوب ملبوس ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ثوب ملبوس پر بھی سجدے کی اجازت ہے۔
اور حسن بصری نے کہا کہ لوگ عمامہ اور کنٹوپ پر سجدہ کیا کرتے تھے اور ان کے دونوں ہاتھ آستینوں میں ہوتے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھا کرتے تھے تو ہم میں سے کوئی شخص سخت گرمی کی وجہ سے سجدے کی جگہ پر اپنے کپڑے کا کنارہ بچھا لیتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ جمہور محدثین کے نزدیک طرف الثوب کے یہی معنی ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ثوب ملبوس کے فاضل حصے پر سجدہ کرتے تھے۔ 2۔ امام شافعی ؒ ثوب ملبوس کے فاضل حصے پر سجدے کی اجازت نہیں دیتے، کیونکہ ایسا کپڑا نمازی کے ساتھ نماز میں شامل ہے، گویا وہ نمازی کے بدن کا حصہ ہے، اس لیے ایسے ثوب ملبوس پر سجدہ زمین پر سجدہ نہیں۔ بلکہ اپنے حصے پر سجدہ ہے جس کی اجازت نہیں۔ ان کےنزدیک طرف الثوب سے مراد یا تو وہ کپڑا ہے جو نماز کے بدن پر نہ ہو اگر بدن پر نہ ہو اگر بدن پر ہو تو وہ اتنی گنجائش رکھتا ہو کہ اس کا سجدے کی جگہ پر ڈالا گیا حصہ نمازی کی حرکت سے متحرک نہ ہو لیکن جمہور کے نزدیک سجدے میں نماز کا پہنا ہوا کپڑا اور دوسرے کپڑے میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ اس دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی مجموعی حالت یہ تھی کہ ان کے پاس تو پہننے کے کپڑے بھی پورے نہ تھے چہ جائیکہ فاضل کپڑے ہوں جنھیں محل سجدہ میں ڈال لیا کریں اور نہ بدن کے کپڑے میں اتنی کشادگی کا امکان ہی ہے کہ نمازی کی حرکت سے وہ متحرک نہ ہو۔ اس لیے یہ فرق قابل قبول نہیں۔ عنوان میں حضرت حسن بصری ؒ کے اثر سے جمہور کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں: صحابہ کرام پگڑی اور ٹوپی پر سجدہ کیا کرتے تھے، نیز ان کے ہاتھ ان کے آستین میں ہوتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے غالب قطان نے بکر بن عبداللہ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک ؓ سے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ پھر سخت گرمی کی وجہ سے کوئی ہم میں سے اپنے کپڑے کا کنارہ سجدے کی جگہ رکھ لیتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): We used to pray with the Prophet (ﷺ) and some of us used to place the ends of their clothes at the place of prostration because of scorching heat.