تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ اس باب میں اتمام سجدہ کی مزید تشریح کر رہے ہیں کہ سجدہ کرتے وقت ہاتھوں کو کشادہ اور انھیں پہلوؤں سے الگ رکھنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو اسی انداز سے کرتے تھے۔ نیز دوران سجدہ میں اپنی کہنیوں کو پہلوؤں سے الگ رکھتے۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہےکہ بوقت سجدہ جسم کے تمام اعضاء سجدہ کرتے ہیں، اگر جسم کو سمیٹ کر اور اعضائے جسم کو آپس میں ملا کر سجدہ کیا جائے تو سب اعضاء سمٹ کر ایک ہی عضو کی شکل اختیار کر جائیں گے اور ہر عضو کو مستقل طور پر سجدے کا حصہ نہیں مل سکے گا جو شریعت کو مطلوب ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہےکہ بندہ جب سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضائے جسم بھی سجدہ کرتے ہیں چہرہ، دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنےاور دونوں پاؤں۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ چہرے کی طرح دونوں ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:891۔ 892) یہی وجہ ہے کہ دوران سجدہ میں افتراش ذراعین (بازوؤں کو بچھانے) کی ممانعت آئی ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ حضرت بحینہ ؓ حضرت عبد اللہ ؓ کی والدہ کا نام ہے اور حضرت مالک ؓ ان (عبد اللہ ؓ ) کے والد کا نام ہے۔ عام دستور سے ہٹ کر حضرت عبد اللہ ؓ کا انتساب ماں باپ دونوں کی طرف کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مالک کے آخر میں تنوین پڑھی جاتی ہے اور ابن بحینہ میں ابن کے الف کو لکھنا چاہیے، کیونکہ اس مقام پر ابن مالک ؓ کی صفت نہیں۔ (عمدة القاري:356/3) 3۔ امام بخاری ؒ نے آخر میں ایک تعلیق بیان کی ہے جسے امام مسلم ؒ نے موصولاً بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو بازوؤں سے دور رکھتے، یہاں تک کہ میں آپ کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ لیتا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1106۔ (495)) اس تعلیق کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حدیث مذکورمیں بکر نامی راوی نے اپنے شیخ جعفر بن ربیعہ سے بصیغہ عن بیان کیا تھا اور لیث نے ان سے تحدیث کی صراحت کی ہے، نیز اس روایت میں لفظ سجدہ کی صراحت نہ تھی (إذَا صَلَّى) کے الفاظ تھے، جبکہ لیث کی روایت میں (إذَا سَجَدَ) کی صراحت ہے۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے خود بھی ایک روایت میں (إذَا سَجَدَ) کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ (صحیح البخاری، المناقب، حدیث:3546)