قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ (بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِينَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ ؓ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ لَوْلاَ الهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ وَقَالَ أَبُو مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ فِي المَنَامِ أَنِّي أُهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضٍ بِهَا نَخْلٌ، فَذَهَبَ وَهَلِي إِلَى أَنَّهَا اليَمَامَةُ، أَوْ هَجَرُ، فَإِذَا هِيَ المَدِينَةُ يَثْرِبُ»

3905. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ، إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ، وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلَّا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيِ النَّهَارِ، بُكْرَةً وَعَشِيَّةً، فَلَمَّا ابْتُلِيَ المُسْلِمُونَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا نَحْوَ أَرْضِ الحَبَشَةِ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَرْكَ الغِمَادِ لَقِيَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ وَهُوَ سَيِّدُ القَارَةِ، فَقَالَ: أَيْنَ تُرِيدُ يَا أَبَا بَكْرٍ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَخْرَجَنِي قَوْمِي، فَأُرِيدُ أَنْ أَسِيحَ فِي الأَرْضِ وَأَعْبُدَ رَبِّي، قَالَ ابْنُ الدَّغِنَةِ: فَإِنَّ مِثْلَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ لاَ يَخْرُجُ وَلاَ يُخْرَجُ، إِنَّكَ تَكْسِبُ المَعْدُومَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ، فَأَنَا لَكَ جَارٌ ارْجِعْ وَاعْبُدْ رَبَّكَ بِبَلَدِكَ، فَرَجَعَ وَارْتَحَلَ مَعَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ، فَطَافَ ابْنُ الدَّغِنَةِ عَشِيَّةً فِي أَشْرَافِ قُرَيْشٍ، فَقَالَ لَهُمْ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لاَ يَخْرُجُ مِثْلُهُ وَلاَ يُخْرَجُ، أَتُخْرِجُونَ رَجُلًا يَكْسِبُ المَعْدُومَ وَيَصِلُ الرَّحِمَ، وَيَحْمِلُ الكَلَّ وَيَقْرِي الضَّيْفَ، وَيُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ، فَلَمْ تُكَذِّبْ قُرَيْشٌ بِجِوَارِ ابْنِ الدَّغِنَةِ، وَقَالُوا: لِابْنِ الدَّغِنَةِ: مُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيَعْبُدْ رَبَّهُ فِي دَارِهِ، فَلْيُصَلِّ فِيهَا وَلْيَقْرَأْ مَا شَاءَ، وَلاَ يُؤْذِينَا بِذَلِكَ وَلاَ يَسْتَعْلِنْ بِهِ، فَإِنَّا نَخْشَى أَنْ يَفْتِنَ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا، فَقَالَ ذَلِكَ ابْنُ الدَّغِنَةِ لِأَبِي بَكْرٍ، فَلَبِثَ أَبُو بَكْرٍ بِذَلِكَ يَعْبُدُ رَبَّهُ فِي دَارِهِ، وَلاَ يَسْتَعْلِنُ بِصَلاَتِهِ وَلاَ يَقْرَأُ فِي غَيْرِ دَارِهِ، ثُمَّ بَدَا لِأَبِي بَكْرٍ، فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ، وَكَانَ يُصَلِّي فِيهِ، وَيَقْرَأُ القُرْآنَ، فَيَنْقَذِفُ عَلَيْهِ نِسَاءُ المُشْرِكِينَ وَأَبْنَاؤُهُمْ، وَهُمْ يَعْجَبُونَ مِنْهُ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا بَكَّاءً، لاَ يَمْلِكُ عَيْنَيْهِ إِذَا قَرَأَ القُرْآنَ، وَأَفْزَعَ ذَلِكَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنَ المُشْرِكِينَ، فَأَرْسَلُوا إِلَى ابْنِ الدَّغِنَةِ فَقَدِمَ عَلَيْهِمْ، فَقَالُوا: إِنَّا كُنَّا أَجَرْنَا أَبَا بَكْرٍ بِجِوَارِكَ، عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ، فَقَدْ جَاوَزَ ذَلِكَ، فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ، فَأَعْلَنَ بِالصَّلاَةِ وَالقِرَاءَةِ فِيهِ، وَإِنَّا قَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا، فَانْهَهُ، فَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَعَلَ، وَإِنْ أَبَى إِلَّا أَنْ يُعْلِنَ بِذَلِكَ، فَسَلْهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْكَ ذِمَّتَكَ، فَإِنَّا قَدْ كَرِهْنَا أَنْ نُخْفِرَكَ، وَلَسْنَا مُقِرِّينَ لِأَبِي بَكْرٍ الِاسْتِعْلاَنَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَتَى ابْنُ الدَّغِنَةِ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتَ الَّذِي عَاقَدْتُ لَكَ عَلَيْهِ، فَإِمَّا أَنْ تَقْتَصِرَ عَلَى ذَلِكَ، وَإِمَّا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيَّ ذِمَّتِي، فَإِنِّي لاَ أُحِبُّ أَنْ تَسْمَعَ العَرَبُ أَنِّي أُخْفِرْتُ فِي رَجُلٍ عَقَدْتُ لَهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَإِنِّي أَرُدُّ إِلَيْكَ جِوَارَكَ، وَأَرْضَى بِجِوَارِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُسْلِمِينَ: «إِنِّي أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ، ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لاَبَتَيْنِ» وَهُمَا الحَرَّتَانِ، فَهَاجَرَ مَنْ هَاجَرَ قِبَلَ المَدِينَةِ، وَرَجَعَ عَامَّةُ مَنْ كَانَ هَاجَرَ بِأَرْضِ الحَبَشَةِ إِلَى المَدِينَةِ، وَتَجَهَّزَ أَبُو بَكْرٍ قِبَلَ المَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَى رِسْلِكَ، فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَهَلْ تَرْجُو ذَلِكَ بِأَبِي أَنْتَ؟ قَالَ: «نَعَمْ» فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَصْحَبَهُ، وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ وَرَقَ السَّمُرِ وَهُوَ الخَبَطُ، أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، قَالَ: عُرْوَةُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَبَيْنَمَا نَحْنُ يَوْمًا جُلُوسٌ فِي بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، قَالَ قَائِلٌ لِأَبِي بَكْرٍ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَقَنِّعًا، فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِينَا فِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِدَاءٌ لَهُ أَبِي وَأُمِّي، وَاللَّهِ مَا جَاءَ بِهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا أَمْرٌ، قَالَتْ: فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ، فَأُذِنَ لَهُ فَدَخَلَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ: «أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ». فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّمَا هُمْ أَهْلُكَ، بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «فَإِنِّي قَدْ أُذِنَ لِي فِي الخُرُوجِ» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: الصَّحَابَةُ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ» قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَخُذْ - بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ - إِحْدَى رَاحِلَتَيَّ هَاتَيْنِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِالثَّمَنِ». قَالَتْ عَائِشَةُ: فَجَهَّزْنَاهُمَا أَحَثَّ الجِهَازِ، وَصَنَعْنَا لَهُمَا سُفْرَةً فِي جِرَابٍ، فَقَطَعَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قِطْعَةً مِنْ نِطَاقِهَا، فَرَبَطَتْ بِهِ عَلَى فَمِ الجِرَابِ، فَبِذَلِكَ سُمِّيَتْ ذَاتَ النِّطَاقَيْنِ قَالَتْ: ثُمَّ لَحِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ بِغَارٍ فِي جَبَلِ ثَوْرٍ، فَكَمَنَا فِيهِ ثَلاَثَ لَيَالٍ، يَبِيتُ عِنْدَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَهُوَ غُلاَمٌ شَابٌّ، ثَقِفٌ لَقِنٌ، فَيُدْلِجُ مِنْ عِنْدِهِمَا بِسَحَرٍ، فَيُصْبِحُ مَعَ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ كَبَائِتٍ، فَلاَ يَسْمَعُ أَمْرًا، يُكْتَادَانِ بِهِ إِلَّا وَعَاهُ، حَتَّى يَأْتِيَهُمَا بِخَبَرِ ذَلِكَ حِينَ يَخْتَلِطُ الظَّلاَمُ، وَيَرْعَى عَلَيْهِمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ، مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ مِنْحَةً مِنْ غَنَمٍ، فَيُرِيحُهَا عَلَيْهِمَا حِينَ تَذْهَبُ سَاعَةٌ مِنَ العِشَاءِ، فَيَبِيتَانِ فِي رِسْلٍ، وَهُوَ لَبَنُ مِنْحَتِهِمَا وَرَضِيفِهِمَا، حَتَّى يَنْعِقَ بِهَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ بِغَلَسٍ، يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ تِلْكَ اللَّيَالِي الثَّلاَثِ، وَاسْتَأْجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلًا مِنْ بَنِي الدِّيلِ، وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ بْنِ عَدِيٍّ، هَادِيَا خِرِّيتًا، وَالخِرِّيتُ المَاهِرُ بِالهِدَايَةِ، قَدْ غَمَسَ حِلْفًا فِي آلِ العَاصِ بْنِ وَائِلٍ السَّهْمِيِّ، وَهُوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، فَأَمِنَاهُ فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا، وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلاَثِ لَيَالٍ، بِرَاحِلَتَيْهِمَا صُبْحَ ثَلاَثٍ، وَانْطَلَقَ مَعَهُمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ، وَالدَّلِيلُ، فَأَخَذَ بِهِمْ طَرِيقَ السَّوَاحِلِ،

مترجم:

ترجمۃ الباب:

حضرات عبد اللہ بن زید اور ابو ہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں انصار کا ایک آدمی بن کر رہنا پسند کرتا اور حضرت ابو موسیٰؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں کہ جہاں کھجور کے باغات بکثرت ہیں ءمیرا ذہن اس سے یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن یہ سر زمین شہر ” یثربُ “ کی تھی ۔

3905.

نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے والدین کو دین حق کی پیروی کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ صبح و شام دونوں وقت رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس نہ آتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو سخت اذیت دی جانے لگی تو حضرت ابوبکر ؓ حبشہ کی طرف ہجرت کی نیت سے (مکہ سے) نکلے۔ جب آپ برک الغماد کے مقام پر پہنچے تو انہیں ابن دغنہ ملا جو قبیلہ قارہ کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا: اے ابوبکر! کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ زمین کی سیروسیاحت کروں اور اپنے رب کی یکسوئی سے عبادت کروں۔ ابن دغنہ کہنے لگے: تمہارے جیسا شخص نہ تو نکلنے پر مجبور ہو سکتا ہے اور نہ اسے کوئی نکال ہی سکتا ہے کیونکہ ضرورت مند محتاج لوگوں کے پاس جو چیز نہیں ہوتی تم انہیں مہیا کرتے ہو، رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہو، ناداروں کی کفالت اور مہمانوں کی ضیافت کرتے ہو اور راہ حق میں ااگر کسی کو مصیبت آئے تو تم اس کی مدد کرتے ہو، لہذا میں تمہیں پنااہ دیتا ہوں تم (مکہ) لوٹ چلو اور اپنے شہر میں رہ کر اپنے رب کی عبادت کرو، چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ ابن دغنہ کے ساتھ مکہ واپس آ گئے۔ اس کے بعد ابن دغنہ رات کے وقت قریش کے سرداروں سے ملا اور ان سے کہا: ابوبکر ؓ جیسا شخص نہ تو نکلنے پر مجبور ہو سکتا ہے اور نہ اسے کوئی نکال ہی سکتا ہے، کیا تم ایسے شخص کو نکالتے ہو جو لوگوں کو وہ چیزیں مہیا کرتے ہے جو ان کے پاس نہیں ہوتیں، وہ رشتہ داروں سے اچھا سلوک اور بے کسوں کی کفالت کرتا ہے، مہمان نوازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اور جب کبھی کسی کو راہ حق میں تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی مدد کرتا ہے۔ الغرض قریش نے ابن دغنہ کی پناہ کو مسترد نہ کیا۔ لبتہ اس سے کہا کہ تم ابوبکر ؓ سے کہہ دو کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں اور وہیں نماز یا جو چاہیں ادا کریں۔ علانیہ یہ کام کر کے ہمارے لیے اذیت کا باعث نہ بنیں کیونکہ یہ کام علانیہ کرنے سے ہمیں اپنی عورتوں اور بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ ابن دغنہ نے حضرت ابوبکر ؓ کو یہ پیغام پہنچا دیا تو انہوں نے اس شرط کے مطابق مکہ میں دوبارہ رہائش رکھ لی، چنانچہ وہ اپنے گھر میں اپنے پروردگار کی عبادت کرتے۔ نہ تو نماز علانیہ ادا کرتے اور نہ اپنے گھر کے علاوہ کسی دوسری جگہ تلاوت ہی کرتے۔ پھر حضرت ابوبکر ؓ کے دل میں خیال میں آیا تو انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنائی، وہاں نماز ادا کرتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے۔ پھر ایسا ہوا کہ مشرکین کی عورتیں اور بچے بکثرت ان کے پاس جمع ہو جاتے، سب کے سب تعجب کرتے اور آپ کی طرف متوجہ رہتے۔ چونکہ ابوبکر ؓ بڑی گریہ و زاری کرنے والے شخص تھے، جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو انہیں اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رہتا تھا۔ یہ حال دیکھ کر سردارانِ قریش گھبرا گئے۔ بالآخر انہوں نے ابن دغنہ کو بلا بھیجا۔ اس کے آنے پر انہوں نے شکایت کی کہ ہم نے ابوبکرؓ کو تمہاری وجہ سے اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں مگر انہوں نے اس سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنا لی ہے جس میں علانیہ نماز ادا کرتے اور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، ہمیں اندیشہ ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے بگڑ جائیں گے، لہذا تم انہیں منع کرو اور اگر وہ اسے منظور کر لیں کہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں تو امان برقرار ہے اگر نہ مانیں اور اس پر ضد کریں کہ علانیہ عبادت کریں گے تو تم اپنی پناہ ان سے واپس مانگ لو کیونکہ ہم لوگ تمہاری پناہ کو توڑنا پسند نہیں کرتے لیکن ہم ابوبکر ؓ کی علانیہ عبادت کو کسی صورت بھی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ اس کے بعد ابن دغنہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا: تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تم سے کس بات پر معاہدہ کیا تھا، لہذ تم اس پر قائم رہو یا پھر میری امان مجھے واپس کرو کیونکہ میں یہ نہیں چاہتا کہ عرب کے لوگ یہ خبر سنیں، جس کو میں نے امان دی تھی اسے پامال کر دیا گیا ہے۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: میں تیری امان واپس کرتا ہوں اور میں صرف اللہ عزوجل کی امان پر خوش ہوں۔ نبی ﷺ اس وقت مکہ ہی میں تھے اور آپ نے مسلمانوں سے فرمایا تھا: ’’مجھے تمہاری ہجرت کی جگہ دکھائی گئی ہے۔ وہاں کھجوروں کے درخت ہیں اور اس کے دونوں طرف پتھریلے میدان ہیں، یعنی سیاہ پتھر ہیں۔‘‘  یہ سن کر جس نے ہجرت کی تو وہ مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوا اور اکثر لوگ جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، وہ بھی مدینہ طیبہ کی طرف لوٹ آئے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے بھی مدینہ طیبہ جانے کی تیاری کی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’ٹھہر جاؤ کیونکہ امید ہے کہ مجھے بھی اجازت مل جائے گی۔‘‘  حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! کیا آپ کو اس کی امید ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘  پھر ابوبکر ؓ نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کے لیے روک لیا اور اپنی دونوں اونٹنیوں کو چار ماہ تک کیکر کے پتے کھلاتے رہے۔ ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عروہ نے کہا کہ حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ا بیان ہے: ایک دن ہم حضرت ابوبکر ؓ کے گھر میں دوپہر کے وقت بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ سے کسی نے کہا: دیکھو یہ رسول اللہ ﷺ اپنے سر پر چادر اوڑھے تشریف لا رہے ہیں۔ آپ پہلے کبھی اس وقت ہمارے پاس نہ آتے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: ان پر میرے ماں باپ قربان ہوں! اللہ کی قسم! وہ اس وقت کسی خاص ضرورت ہی سے آئے ہیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں: پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ کو اجازت دی گئی۔ پھر نبی ﷺ نے اندر آ کر حضرت ابوبکر ؓ سے فرمایا: ’’اپنے لوگوں سے کہو ذرا باہر چلے جائیں۔‘‘ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! یہاں تو آپ ہی کے گھر والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔‘‘  حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! اللہ کے رسول! مجھے بھی ساتھ لیجیے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ٹھیک ہے۔" حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: میرے باپ آپ پر قربان ہوں! اللہ کے رسول! میری دو اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’(ٹھیک ہے لیکن ہم) قیمت سے لیں گے۔‘‘  حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ا بیان ہے کہ پھر ہم نے جلدی سے دونوں کا سامان سفر تیار کیا اور دونوں کے لیے ایک چمڑے کی تھیلی میں کھانا وغیرہ رکھ دیا۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ ن‬ے اپنے کمر بند کا ایک ٹکڑا کاٹ کر اس سے تھیلی کا منہ بند کیا۔ اس وجہ سے ان کا لقب ذات النطاقین رکھا گیا۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں: پھر رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ جبل ثور کی غار میں چلے گئے اور تین دن اس میں چھپے رہے۔ حضرت عبداللہ بن ابوبکر ؓ بھی رات کو ان کے پاس رہتے۔ وہ ایک ذہین اور زیرک نوجوان تھے۔ رات کے پچھلے پہر ان دونوں کے پاس سے واپس چلے آتے اور صبح مکہ میں قریش کے ساتھ اس طرح گھل مل جاتے جیسے رات کو وہیں رہے ہیں۔ پھر وہ جتنی باتیں اور تدابیر انہیں نقصان پہنچانے کی سنتے انہیں یاد رکھتے اور رات کی تاریکی میں آتے ہی یہ تمام رپورٹ انہیں پہنچا دیتے۔ حضرت ابوبکر ؓ کا غلام عامر بن فہیرہ بھی ان کے آس پاس اس طرح بکریاں چراتا کہ جب کچھ رات گزر جاتی تو وہ بکریوں کو ان کے پاس لے جاتا تو وہ رات کے وقت تازہ اور گرم گرم دودھ پی کر رات بسر کرتے، پھر عامر بن فہیرہ صبح منہ اندھیرے ہی ان بکریوں کو ہانک لے جاتا تھا، چنانچہ وہ تین راتوں میں ہر شب ایسا ہی کرتا رہا۔ پھر رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ نے قبیلہ بنودیل کے ایک شخص کو مزدور مقرر فرمایا۔ یہ بنو عبد بن عدی میں سے تھا جو بڑا وقف کار رہبر تھا۔ اس نے آل عاص بن وائل سہمی سے عقد حلف کر رکھا تھا اور کفار قریش کے دین پر تھا۔ پھر ان دونوں حضرات نے اس کو امین بنا کر اپنی سواریاں اس کے حوالے کر دیں اور اس سے تین دن بعد، یعنی تیسرے دن کی صبح کو غار ثور پر دونوں سوریوں کو لانے کا عہد لے لیا، چنانچہ وہ حسب وعدہ تیسری رات کی صبح کو اونٹنیاں لے کر حاضر ہوا۔ پھر دونوں حضرات، عامر بن فہیرہ اور راستہ بتانے والے شخص کو لے کر روانہ ہوئے اور اس رہبر نے ان کے ہمراہ ساحل سمندر کا رستہ اختیار کیا۔