تشریح:
1۔حجفہ میں اس وقت یہودی رہا کرتے تھے اور یہ مدینہ طیبہ سے سات مراحل پر واقع ہے۔ اس کے اور سمندر کے درمیان صرف چھ میل کا فاصلہ ہے۔ اب اہل مصر کا میقات ہے۔ آب و ہوا کی خرابی کی وجہ سے اب بھی مشہور ہے یقیناً رسول اللہ ﷺ کی بددعا کا اثر ہے۔ 2۔حضرت بلال ؓ بخار اترنے کے بعد یہ بھی کہا کرتے تھے۔ ’’اے اللہ! عتبہ بن ربیعہ شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت کر، انھیں اپنی رحمت سے باہر نکال دے جیسے انھوں نے ہمیں اس وبائی سر زمین میں آنے پر مجبور کیا۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث:1889) 3۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں حضرت عامر بن فہرہ کے پاس بھی جاتی اور اس سے حال پوچھتی تو وہ بھی کہتے کہ موت آنے سے پہلے ہی مجھے اس کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے آپ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی اور عرض کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! یہ حضرات شدت بخار کی وجہ سے ہذیان کا شکار ہیں: خود حضرت عائشہ ؓ کو مدینے پہنچ کر اس قدر سخت بخار ہوا کہ آپ کے بال جھڑ گئے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کی آب و ہوا کے خوشگوار ہونے کی دعا فرمائی۔ اس کی تفصیل کتاب فضائل المدینہ کے آخر میں حدیث 1889 کے تحت ملاحظہ کریں۔