تشریح:
1۔ اس حدیث میں قوم یہود کی ایک عادت بیان ہوئی ہے کہ جب وہ اپنے خلاف کسی سے کوئی بات سنتے ہیں تو اس کے خلاف بدزبانی کرناشروع کردیتے ہیں۔ بدکردار لوگوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ جو شخص ان کے مزاج کے خلاف ہو، خواہ وہ کتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو وہ اس کی بُرائی کریں گے۔ علماء سوء کا بھی یہی حال ہے کہ اگر کوئی عالم فاضل ان کے اختیار کردہ کسی مؤقف سے اختلاف کرے تو اس کے سب فضائل وکمالات ایک طرف ڈال کر اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔ اکثر فقہی متعصب علماء اس مرض میں گرفتار ہیں۔ 2۔ چونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کاذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان فرمایا ہے۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ مچھلی کا جگر انتہائی لذیذ اور بہترین کھانا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اہل جنت کی جنت میں پہلے اس کھانے سے ضیافت فرمائے گا۔ حضرت ثوبان ؓ کی حدیث میں ہے کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو ان کا ناشتہ مچھلی کے جگر سے ہوگا اورچشمہ سلسبیل سے جام بھر بھر کر انھیں پلائے جائیں گے۔ (المعجم الکبیر للطبراني:93/2، وفتح الباري:341/7)