تشریح:
1۔غزوہ بدر کا سبب عشیرہ کا سفرتھا۔ رسول اللہ ﷺ قریش کے سردارابوسفیان کا پیچھا کرنے کے لیے نکلے جو شام سے مالِ تجارت لے کر واپس مکے جارہے تھے۔ اور ابوجہل وغیرہ اس کے تعاون کے لیے نکلے۔ مالِ تجارت والا قافلہ تو بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن مقام بدر پر اسلام اور کفر کے مابین عظیم معرکہ برپا ہوا جس میں ابوجہل اور قریش کے بڑے بڑے سورما مارے گئے۔ کفر کی ٹوٹ گئی اور اسلام کا عروج شروع ہوا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے کتاب المغازی کا آغاز غزوہ عشیرہ سے کیا ہے اور اس میں زید بن ارقم ؓ کی روایت لائے ہیں، حالانکہ اہل سیر کا اتفاق ہے کہ اس سے پہلے تقریباً تین غزوات ہوچکےتھے۔ اس بنا پر حضرت زید بن ارقم ؓ کے قول کی یہ توجیہ ہوگی کہ شاید اس وقت حضرت زید ؓ مسلمان نہ ہوئے ہوں، یا انھوں نے چھوٹے چھوٹے غزوات کو ذکر کرنا مناسب خیال نہ کیا ہو، یا انھوں نے اپنے علم کے مطابق بیان کیا ہو اور اس عشیرہ سے پہلے غزوات کا انھیں علم نہ ہوسکا۔ 3۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کی غرض اول المغازی کو بیان کرنا نہیں بلکہ غزوہ عشیرہ کاخاص طورپر اس لیے ذکر کیا ہے کہ وہ غزوہ بدر کبریٰ کے لیے بطور تمہید کے ہے۔ انھوں نے ابن اسحاق کا قول بھی اسی لیے ذکر کیا جاتا ہےتاکہ حضرت زید بن ارقم کی روایت سے اول المغازی کا وہم دور ہوجائے۔ 4۔ غزوہ عشیرہ سے پہلے سرایا اور غزوات حسب ذیل ہیں: ©۔سریہ سیف البحر رمضان 1ہجری۔ ©۔سریہ رابغ شوال 1ہجری۔ ©۔غزوہ ابواء صفر 2ہجری۔ ©۔سریہ ضرار ذی القعدہ 1ہجری۔ ©۔غزوہ بواط ربیع الاول 2ہجری۔ ©۔غزوہ سفوان ربیع الاول 2ہجری۔ ©۔اس کے بعد غزوہ عشیرہ جمادی الاولیٰ 2ہجری میں پیش آیا۔ پھر سریہ نخلہ رجب 2ہجری میں ہوا۔ آخر میں غزوہ بدر کبریٰ ہوا جو حق وباطل کے درمیان حقیقی فیصلہ کن غزوہ تھا جسے قرآن نے یوم الفرقان کا نام دیا ہے۔ 5۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آٹھ جنگیں خود لڑی ہیں ان میں بدر، اُحد، احزاب، بنی مصطلق، خبیر، مکہ، حنین اور طائف سرفہرست ہیں۔بنوقریظہ سے جنگ، احزاب ہی کا حصہ تھا۔ واللہ اعلم۔