باب: سجدہ میں اپنی بغلوں کو کھلی رکھے اور اپنی پسلیوں سے (ہر دو کہنیوں کو) جدا رکھے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: During Prostrations one should show his armpits and separate his forearms from his body)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
395.
حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے ہاتھوں کو کشادہ رکھتے یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نمایاں طور پر ظاہر ہوتی۔ لیث کہتے ہیں: جعفر بن ربیعہ نے مجھ سے اس طرح کی روایت بیان کی۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ اس باب میں اتمام سجدہ کی مزید تشریح کر رہے ہیں کہ سجدہ کرتے وقت ہاتھوں کو کشادہ اور انھیں پہلوؤں سے الگ رکھنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو اسی انداز سے کرتے تھے۔ نیز دوران سجدہ میں اپنی کہنیوں کو پہلوؤں سے الگ رکھتے۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہےکہ بوقت سجدہ جسم کے تمام اعضاء سجدہ کرتے ہیں، اگر جسم کو سمیٹ کر اور اعضائے جسم کو آپس میں ملا کر سجدہ کیا جائے تو سب اعضاء سمٹ کر ایک ہی عضو کی شکل اختیار کر جائیں گے اور ہر عضو کو مستقل طور پر سجدے کا حصہ نہیں مل سکے گا جو شریعت کو مطلوب ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہےکہ بندہ جب سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضائے جسم بھی سجدہ کرتے ہیں چہرہ، دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنےاور دونوں پاؤں۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ چہرے کی طرح دونوں ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:891۔ 892) یہی وجہ ہے کہ دوران سجدہ میں افتراش ذراعین (بازوؤں کو بچھانے) کی ممانعت آئی ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ حضرت بحینہ ؓ حضرت عبد اللہ ؓ کی والدہ کا نام ہے اور حضرت مالک ؓ ان (عبد اللہ ؓ ) کے والد کا نام ہے۔ عام دستور سے ہٹ کر حضرت عبد اللہ ؓ کا انتساب ماں باپ دونوں کی طرف کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مالک کے آخر میں تنوین پڑھی جاتی ہے اور ابن بحینہ میں ابن کے الف کو لکھنا چاہیے، کیونکہ اس مقام پر ابن مالک ؓ کی صفت نہیں۔ (عمدة القاري:356/3) 3۔ امام بخاری ؒ نے آخر میں ایک تعلیق بیان کی ہے جسے امام مسلم ؒ نے موصولاً بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو بازوؤں سے دور رکھتے، یہاں تک کہ میں آپ کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ لیتا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1106۔ (495)) اس تعلیق کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حدیث مذکورمیں بکر نامی راوی نے اپنے شیخ جعفر بن ربیعہ سے بصیغہ عن بیان کیا تھا اور لیث نے ان سے تحدیث کی صراحت کی ہے، نیز اس روایت میں لفظ سجدہ کی صراحت نہ تھی (إذَا صَلَّى) کے الفاظ تھے، جبکہ لیث کی روایت میں (إذَا سَجَدَ) کی صراحت ہے۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے خود بھی ایک روایت میں (إذَا سَجَدَ) کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ (صحیح البخاری، المناقب، حدیث:3546)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
388
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
390
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
390
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
390
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
ستر عورۃ کے ابواب کے آخر میں اس باب کو اس لیے رکھا گیا ہے کہ ستر عورۃ تو ضروری ہے لیکن دوران سجدہ میں بازوؤں کو اپنے پہلوؤں سے الگ رکھنا نہ تو خلاف سنت ہے اور نہ ستر عورۃ کے منافی ہے۔( فتح الباری:1/642۔)
حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے ہاتھوں کو کشادہ رکھتے یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نمایاں طور پر ظاہر ہوتی۔ لیث کہتے ہیں: جعفر بن ربیعہ نے مجھ سے اس طرح کی روایت بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ اس باب میں اتمام سجدہ کی مزید تشریح کر رہے ہیں کہ سجدہ کرتے وقت ہاتھوں کو کشادہ اور انھیں پہلوؤں سے الگ رکھنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو اسی انداز سے کرتے تھے۔ نیز دوران سجدہ میں اپنی کہنیوں کو پہلوؤں سے الگ رکھتے۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہےکہ بوقت سجدہ جسم کے تمام اعضاء سجدہ کرتے ہیں، اگر جسم کو سمیٹ کر اور اعضائے جسم کو آپس میں ملا کر سجدہ کیا جائے تو سب اعضاء سمٹ کر ایک ہی عضو کی شکل اختیار کر جائیں گے اور ہر عضو کو مستقل طور پر سجدے کا حصہ نہیں مل سکے گا جو شریعت کو مطلوب ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہےکہ بندہ جب سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضائے جسم بھی سجدہ کرتے ہیں چہرہ، دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنےاور دونوں پاؤں۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ چہرے کی طرح دونوں ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:891۔ 892) یہی وجہ ہے کہ دوران سجدہ میں افتراش ذراعین (بازوؤں کو بچھانے) کی ممانعت آئی ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ حضرت بحینہ ؓ حضرت عبد اللہ ؓ کی والدہ کا نام ہے اور حضرت مالک ؓ ان (عبد اللہ ؓ ) کے والد کا نام ہے۔ عام دستور سے ہٹ کر حضرت عبد اللہ ؓ کا انتساب ماں باپ دونوں کی طرف کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مالک کے آخر میں تنوین پڑھی جاتی ہے اور ابن بحینہ میں ابن کے الف کو لکھنا چاہیے، کیونکہ اس مقام پر ابن مالک ؓ کی صفت نہیں۔ (عمدة القاري:356/3) 3۔ امام بخاری ؒ نے آخر میں ایک تعلیق بیان کی ہے جسے امام مسلم ؒ نے موصولاً بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو بازوؤں سے دور رکھتے، یہاں تک کہ میں آپ کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ لیتا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1106۔ (495)) اس تعلیق کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حدیث مذکورمیں بکر نامی راوی نے اپنے شیخ جعفر بن ربیعہ سے بصیغہ عن بیان کیا تھا اور لیث نے ان سے تحدیث کی صراحت کی ہے، نیز اس روایت میں لفظ سجدہ کی صراحت نہ تھی (إذَا صَلَّى) کے الفاظ تھے، جبکہ لیث کی روایت میں (إذَا سَجَدَ) کی صراحت ہے۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے خود بھی ایک روایت میں (إذَا سَجَدَ) کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ (صحیح البخاری، المناقب، حدیث:3546)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا مجھ سے حدیث بیان کی بکر بن مضر نے جعفر سے، وہ ابن ہرمز سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے بازوؤں کے درمیان اس قدر کشادگی کر دیتے کہ دونوں بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگتی تھی اور لیث نے یوں کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے اسی طرح حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
یہ سب رکوع وسجود کے آداب بیان کيے گئے ہیں جن کا ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Malik (RA): Ibn Buhaina, "When the Prophet (ﷺ) prayed, he used to separate his arms from his body so widely that the whiteness of his armpits was visible."