تشریح:
1۔امام بخاری ؒ نے حضرت کعب بن مالک ؓ کی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا ہے۔ اس کا تفصیلی ذکر آئندہ بیان ہوگا، البتہ اس مقام پر غزوہ بدر کاپس منظر بیان کرنا مقصود ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنگی تیاری کے ساتھ باہر نہیں نکلے تھے بلکہ آپ کا مقصد صرف ابوسفیان کے قافلے پر گرفت کرنا تھی جو شام کے علاقے سے ہتھیار خرید کر واپس آرہا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ان سے جنگی سامان چھیننے کا پروگرام تشکیل دیا کیونکہ ایسے ہنگامی حالات میں دشمن سے اسلحہ چھین لینا ہی ایک بہترین جنگ چال ہے، بلکہ اس کے برعکس رواداری کرنا سیاسی غلطی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے وعدہ فرمایا تھا کہ دوگروہوں تجارتی قافلے یا لشکر میں سے ایک پر آپ کوکامیاب کرےگا، لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو ابوسفیان کے قافلے پر کامیابی زیادہ محبوب تھی کیونکہ اس سے لڑائی کے بغیر جنگی سامان ہاتھ آنے کی اُمید تھی۔ ابوسفیان نے ساحلی راستہ اختیار کیا اور اپنا قافلہ مسلمانوں سے بچا کر نکل جانے میں کامیاب ہوگیا۔ ادھر ابوجہل اس قافلے کی مدد کے لیے ایک ہزار کی نفری کے ساتھ مکے سے نکل پڑاتھا، چنانچہ مقام بدر میں حق وباطل کے درمیان عظیم معرکہ برپا ہوا۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ سے جنگ کے ارادے سے نہیں نکلے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر میں شریک نہ ہونے والوں پر کسی قسم کا اظہارِ ناراضی نہیں فرمایا، لیکن غزوہ تبوک کا معاملہ اسے مختلف تھا۔ اس میں تمام مسلمانوں کو جنگ کے لیے باہرنکلنے کا حکم تھا، اس لیے جو لوگ نہیں گئے ان پرعتاب نازل ہواجن میں حضرت کعب بن مالک ؓ بھی تھے۔