تشریح:
1۔ رسول اللہﷺ خانہ کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے جبکہ سرداران قریش کچھ دوربیٹھے تھے۔ ان میں سے عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور ذبح شدہ اونٹ کی اوجھڑی گندگی سمیت لایا اور اسے آپ کی پیٹھ پر رکھ دیا۔ وہ اتنی بوجھل تھی کہ آپ اس کی وجہ سے اٹھ نہ سکے۔ سیدہ فاطمہ ؓ آئیں اور انھوں نے اسے دور کیا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے نام بنام ان کے متعلق بددعا کی جس کا اس حدیث میں ذکر ہے۔ یہ سب کے سب غزوہ بدر میں مارے گئے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:240) 2۔ یہ لوگ معاشرے میں عضو فاسد کی حیثیت اختیار کرچکے تھے، اس لیے ان کا کاٹ دینا ہی مناسب تھا، اس لیے آپ نے ان کے لیے بددعا کی اور انھیں صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا۔ ساری قوم کے لیے بددعا کرنا رسول اللہ ﷺ سےثابت نہیں۔ البتہ حضرت نوح ؑ اورحضرت موسیٰ ؑ سے ساری قوم کے لیے بددعا کرنا ثابت ہے جو ان کی شان جلالی کا مظہر ہے۔ قیامت کے دن وہ اس کے متعلق افسوس کا اظہار کریں گے۔