قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ حَدِيثِ بَنِي النَّضِيرِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ الزُّهْرِيُّ: عَنْ عُرْوَةَ: «كَانَتْ عَلَى رَأْسِ سِتَّةِ أَشْهُرٍ مِنْ وَقْعَةِ بَدْرٍ، قَبْلَ أُحُدٍ» وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الحَشْرِ مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا} [الحشر: 2] وَجَعَلَهُ ابْنُ إِسْحَاقَ بَعْدَ بِئْرِ مَعُونَةَ، وَأُحُدٍ

4033. حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيُّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دَعَاهُ إِذْ جَاءَهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا فَقَالَ هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ فَقَالَ نَعَمْ فَأَدْخِلْهُمْ فَلَبِثَ قَلِيلًا ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ وَعَلِيٍّ يَسْتَأْذِنَانِ قَالَ نَعَمْ فَلَمَّا دَخَلَا قَالَ عَبَّاسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِي الَّذِي أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِي النَّضِيرِ فَاسْتَبَّ عَلِيٌّ وَعَبَّاسٌ فَقَالَ الرَّهْطُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنْ الْآخَرِ فَقَالَ عُمَرُ اتَّئِدُوا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ يُرِيدُ بِذَلِكَ نَفْسَهُ قَالُوا قَدْ قَالَ ذَلِكَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَبَّاسٍ وَعَلِيٍّ فَقَالَ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ ذَلِكَ قَالَا نَعَمْ قَالَ فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ فَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ إِلَى قَوْلِهِ قَدِيرٌ فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَهَا عَلَيْكُمْ لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَقَسَمَهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ مِنْهَا فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ فَعَمِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ ثُمَّ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهُ أَبُو بَكْرٍ فَعَمِلَ فِيهِ بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ وَقَالَ تَذْكُرَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ فِيهِ كَمَا تَقُولَانِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهِ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ فَقَبَضْتُهُ سَنَتَيْنِ مِنْ إِمَارَتِي أَعْمَلُ فِيهِ بِمَا عَمِلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي فِيهِ صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ جِئْتُمَانِي كِلَاكُمَا وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ فَجِئْتَنِي يَعْنِي عَبَّاسًا فَقُلْتُ لَكُمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ فَلَمَّا بَدَا لِي أَنْ أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا قُلْتُ إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلَانِ فِيهِ بِمَا عَمِلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَمَا عَمِلْتُ فِيهِ مُنْذُ وَلِيتُ وَإِلَّا فَلَا تُكَلِّمَانِي فَقُلْتُمَا ادْفَعْهُ إِلَيْنَا بِذَلِكَ فَدَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ فَوَاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهِ بِقَضَاءٍ غَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهُ فَادْفَعَا إِلَيَّ فَأَنَا أَكْفِيكُمَاهُ .

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور رسول اللہ ﷺ کا دو مسلمانوں کی دیت کے سلسلے میں ان کے پاس جانا اور آنحضرت ﷺکے ساتھ ان کا دغابازی کرنا ۔ زہری نے عروہ سے بیان کیا کہ غزوہ بنو نضیر ، غزوہ بدر کے چھ مہینے بعد اور غزوہ احد سے پہلے ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” اللہ ہی وہ ہے جس نے نکالا ان لوگوں کو جو کافر ہوئے اہل کتاب سے ان کے گھروں سے اور یہ ( جزیرہ عرب سے ) انکی پہلی جلا وطنی ہے “ ابن اسحاق کی تحقیق میں یہ غزوہ غزوہ بئر معونہ اور غزوہ احد کے بعد ہوا تھا ۔تشریح:قبیلہ بنو نضیر ان کافروں میں سے تھے جن کا آنحضرتﷺ سے عہد وپیمان تھا کہ نہ خود آپ سے لڑیں گے نہ آپ کے دشمنوں کو مدد دیں گے ایسا ہوا کہ عامر بن طفیل نے جب قاریوں کو بیئر معونہ کے قریب فریب و دغا سے مار ڈالا تھا تو عمرو بن امیہ ضمیری کو جو مسلمان تھے اپنی ماں کی منت میں آزاد کردیا۔راستے میں ان کو بنو عامر کے دو شخص ملے انہوں نے سوتے میں ان کو مار ڈالا اور سمجھے میں نے بنو عامر سے جن میں کا ایک عامر بن طفیل تھا بدلہ لیا تھا۔آنحضرتﷺ کو مدینہ میں آکر خبر کی ان کو یہ خبر نہ تھی کہ آنحضرتﷺ اور ان کے مردوں سے عہدوپیمان ہے۔آپ نے عمرو سے فرمایا میں ان دو شخصوں کی دیت دوں گا بنو نضیر بھی بنوعامرکے ساتھ عبد رکھتے تھے آپ بنی نضیر کے پاس اس دیت میں مدد لینے کو تشریف لےگئے۔ان بدمعاشوں نے آپ کو اور آپ کے اصحاب کو بٹھایا اور ظاہر میں امداد کا وعدہ کیا لیکن درپردہ یہ صلاح کی کہ آپ دیوار کے تلے بیٹھے تھے دیوار سے ایک پتھر آپ پر پھینک کر آپ کو شہید کر دیں۔اللہ نے جبرئیل کے ذریعے سے آپ کو آگاہ کر دیا آپ وہاں سے ایک دم اٹھ کر مدینہ روانہ ہوگئے اور دیگر صحابی بھی۔موقع آنے پر آپ نے ان بدمعاشوں پر چڑھائی کرنے کا حکم دے دیا۔ اسی واقعہ کی کچھ تفصیلات یہاں مذکور ہیں یہود کا پہلا اخرج عرب سے شام کے ملک میں ہوا‘پھر عہد فاروقی میں دوسرا اخرج خیبر سے شام کے ملک کو ہوا۔بعضوں نے کہا دوسرے اخراج سے قیامت کا حشرہ مراد ہے یہ آیت بنی نضیر کے یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔

4033.

حضرت مالک بن اوس بن حدثان نصری سے روایت ہے، حضرت عمر ؓ نے انہیں بلایا تو اچانک آپ کے چوکیدار یرفاء آئے اور کہا کہ حضرت عثمان بن عفان، عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور حضرت سعد بن ابی وقاص‬ ؓ ا‬ندر آنا چاہتے ہیں، کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا: انہیں اندر بلا لو۔ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور کہا کہ حضرت عباس اور حضرت علی ؓ بھی اجازت چاہتے ہیں، آیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ جب یہ دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے اور سلام کہا تو حضرت عباس ؓ نے کہا: امیر المومنین! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجیے اور وہ دونوں بزرگ اس جائیداد کے متعلق جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو بنو نضیر کے مال سے بطور فے عطا فرمایا تھا۔ اس موقع پر حضرت علی اور حضرت عباس ؓ نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا: (جب انہوں نے ایک دوسرے پر تنقید کی) تو حاضرین بولے: امیر المومنین! آپ ان دونوں کا فیصلہ کر دیں تاکہ ان دونوں میں کوئی جھگڑا نہ رہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ذرا صبر کرو! میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ’’ہم انبیاء کی جائیداد تقسیم نہیں ہوتی۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘  اور اس سے رسول اللہ ﷺ کی مراد خود اپنی ذات کریمہ تھی؟ حاضرین نے کہا: یقینا آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ پھر حضرت عمر ؓ حضرت عباس اور حضرت علی ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے فرمایا: میں آپ دونوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث بیان فرمائی تھی؟ ان دونوں بزرگوں نے بھی ہاں میں جواب دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اب میں آپ لوگوں سے اس معاملے کے متعلق گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو اس مالِ فے میں سے خاص طور پر عطا فر دیا تھا، جو آپ کے سوا اور کسی کو نہیں دیا۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ’’اللہ تعالٰی نے بنو نضیر کے اموال میں سے جو کچھ اپنے رسول کو دیا ہے تم نے اس کے لیے کوئی گھوڑے یا اونٹ نہیں دوڑائے۔۔‘‘  (یعنی تم نے کوئی جنگ وغیرہ نہیں کی) تو یہ مال خاص رسول اللہ ﷺ کے لیے تھا لیکن اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے تمہیں نظر انداز کر کے اسے اپنے لیے مخصوص نہیں فرمایا اور نہ تم پر اپنی ذات ہی کو ترجیح دی تھی۔ آپ نے وہ مال تمہیں دیا اور تم پر تقسیم کر دیا حتی کہ اس میں سے صرف یہ مال باقی رہا ہے جو رسول اللہ ﷺ اپنے اہل و عیال پر سال بھر خرچ کرتے تھے اور جو مال باقی بچتا تھا، اسے آپ اللہ تعالٰی کے مصارف میں خرچ کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا زندگی بھر یہی معمول رہا۔ پھر جب نبی ﷺ کی وفات ہو گئی تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کا جانشیں ہوں اور اس مال کو انہوں نے اپنے قبضے میں کر لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جن میں رسول اللہ ﷺ خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ حضرت علی اور حضرت عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے وہی طریقہ اختیار کیا جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے۔ اللہ کی قسم! وہ اپنے طرز عمل میں سچے، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالٰی نے حضرت ابوبکر ؓ کو بھی اٹھا لیا تو میں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کا جانشیں ہوں اور اپنی امارت کے دو سال تک اس پر قابض رہا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتا رہا جن میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ نے کیا تھا۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا، مخلص، صحیح راستہ پر گامزن اور حق کی پیروی کرنے والا تھا۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے۔ آپ دونوں ایک ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ اے عباس! تم میرے پاس آئے تو میں نے تم دونوں سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘  پھر میں نے سوچا کہ وہ جائیداد تمہارے حوالے کر دوں تو میں نے تمہیں کہا: اگر تم چاہتے ہو تو میں یہ جائیداد اس شرط پر تمہارے حوالے کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالٰی کے سامنے کیے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو پور کرو گے اور اس میں وہی طرز عمل اختیار کرو گے جو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ نے کیا تھا اور جیسا آغاز خلافت سے میرا ہے۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو مجھ سے اس کے متعلق گفتگو نہ کرو۔ اس وقت تم نے کہا: اس شرط پر جائیداد ہمارے حوالے کر دو تو میں نے اسے تمہارے سپرد کر دیا۔ کیا اب تم مجھ سے اس کے سوا کوئی اور فیصلہ طلب کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، قیام تک میں اس کے علاوہ اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر تم ان شرائط کو پورا کرنے سے عاجز ہو تو جائیداد مجھے واپس کر دو۔ میں خود اس کا انتظام کروں گا۔