قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ قَتْلِ أَبِي رَافِعٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الحُقَيْقِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَيُقَالُ: سَلَّامُ بْنُ أَبِي الحُقَيْقِ، كَانَ بِخَيْبَرَ، وَيُقَالُ: فِي حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الحِجَازِ وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: «هُوَ بَعْدَ كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ»

4039. حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي رَافِعٍ الْيَهُودِيِّ رِجَالًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُعِينُ عَلَيْهِ وَكَانَ فِي حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الْحِجَازِ فَلَمَّا دَنَوْا مِنْهُ وَقَدْ غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَرَاحَ النَّاسُ بِسَرْحِهِمْ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لِأَصْحَابِهِ اجْلِسُوا مَكَانَكُمْ فَإِنِّي مُنْطَلِقٌ وَمُتَلَطِّفٌ لِلْبَوَّابِ لَعَلِّي أَنْ أَدْخُلَ فَأَقْبَلَ حَتَّى دَنَا مِنْ الْبَابِ ثُمَّ تَقَنَّعَ بِثَوْبِهِ كَأَنَّهُ يَقْضِي حَاجَةً وَقَدْ دَخَلَ النَّاسُ فَهَتَفَ بِهِ الْبَوَّابُ يَا عَبْدَ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تَدْخُلَ فَادْخُلْ فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُغْلِقَ الْبَابَ فَدَخَلْتُ فَكَمَنْتُ فَلَمَّا دَخَلَ النَّاسُ أَغْلَقَ الْبَابَ ثُمَّ عَلَّقَ الْأَغَالِيقَ عَلَى وَتَدٍ قَالَ فَقُمْتُ إِلَى الْأَقَالِيدِ فَأَخَذْتُهَا فَفَتَحْتُ الْبَابَ وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُسْمَرُ عِنْدَهُ وَكَانَ فِي عَلَالِيَّ لَهُ فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْهُ أَهْلُ سَمَرِهِ صَعِدْتُ إِلَيْهِ فَجَعَلْتُ كُلَّمَا فَتَحْتُ بَابًا أَغْلَقْتُ عَلَيَّ مِنْ دَاخِلٍ قُلْتُ إِنْ الْقَوْمُ نَذِرُوا بِي لَمْ يَخْلُصُوا إِلَيَّ حَتَّى أَقْتُلَهُ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ فِي بَيْتٍ مُظْلِمٍ وَسْطَ عِيَالِهِ لَا أَدْرِي أَيْنَ هُوَ مِنْ الْبَيْتِ فَقُلْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ قَالَ مَنْ هَذَا فَأَهْوَيْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً بِالسَّيْفِ وَأَنَا دَهِشٌ فَمَا أَغْنَيْتُ شَيْئًا وَصَاحَ فَخَرَجْتُ مِنْ الْبَيْتِ فَأَمْكُثُ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ دَخَلْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ مَا هَذَا الصَّوْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ فَقَالَ لِأُمِّكَ الْوَيْلُ إِنَّ رَجُلًا فِي الْبَيْتِ ضَرَبَنِي قَبْلُ بِالسَّيْفِ قَالَ فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً أَثْخَنَتْهُ وَلَمْ أَقْتُلْهُ ثُمَّ وَضَعْتُ ظِبَةَ السَّيْفِ فِي بَطْنِهِ حَتَّى أَخَذَ فِي ظَهْرِهِ فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ فَجَعَلْتُ أَفْتَحُ الْأَبْوَابَ بَابًا بَابًا حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى دَرَجَةٍ لَهُ فَوَضَعْتُ رِجْلِي وَأَنَا أُرَى أَنِّي قَدْ انْتَهَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ فَانْكَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبْتُهَا بِعِمَامَةٍ ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّى جَلَسْتُ عَلَى الْبَابِ فَقُلْتُ لَا أَخْرُجُ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَعْلَمَ أَقَتَلْتُهُ فَلَمَّا صَاحَ الدِّيكُ قَامَ النَّاعِي عَلَى السُّورِ فَقَالَ أَنْعَى أَبَا رَافِعٍ تَاجِرَ أَهْلِ الْحِجَازِ فَانْطَلَقْتُ إِلَى أَصْحَابِي فَقُلْتُ النَّجَاءَ فَقَدْ قَتَلَ اللَّهُ أَبَا رَافِعٍ فَانْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ فَقَالَ ابْسُطْ رِجْلَكَ فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَهَا فَكَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَكِهَا قَطُّ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

کہتے ہیں اس کا نام سلام بن ابی الحقیق تھا ۔ یہ خیبر میں رہتا تھا ۔ بعضوں نے کہا ایک قلعہ میں حجاز کے ملک میں واقع تھا ۔ زہری نے کہا ابو رافع کعب بن اشرف کے بعد قتل ہوا ۔ ( رمضان 6ھ میں )

4039.

حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند انصار کو ابو رافع یہودی کے پاس بھیجا اور ان پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ یہ ابو رافع رسول اللہ ﷺ کو سخت اذیت دیا کرتا تھا اور آپ کے مخالفین کی اعانت کرتا تھا۔ زمین حجاز میں اس کا قلعہ تھا اور وہ اس میں رہائش پذیر تھا۔ جب یہ لوگ اس کے پاس پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا اور شام کے وقت لوگ اپنے مویشی واپس لا رہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرو، میں جاتا ہوں اور دربان سے مل کر اس سے نرم نرم باتیں کر کے قلعے کے اندر جانے کی کوئی تدبیر کرتا ہوں، چنانچہ وہ قلعے کی طرف روانہ ہوئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر خود کو کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا گویا وہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت اہل قلعہ اندر جا چکے تھے۔ دربان نے اپنا آدمی سمجھ کر آواز دی: اے اللہ کے بندے! میں دروازہ بند کر رہا ہوں اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ جا۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر (قلعے کے) اندر داخل ہوا اور چھپ گیا۔ جب سب لوگ اندر آ چکے تو دربان نے دروازہ بند کر کے چابیاں کھونٹی پر لٹکا دیں۔ حضرت عبداللہ ؓ کا بیان ہے کہ میں نے اٹھ کر چابیاں لیں اور قلعے کا دروازہ کھول دیا۔ ادھر ابو رافع کے پاس رات کے وقت قصہ گوئی ہوا کرتی تھی اور وہ اپنے بالاخانہ میں رہتا تھا۔ جب داستان گو اس کے پاس سے چلے گئے تو میں اس کی طرف چلنے لگا۔ جب کوئی دروازہ کھولتا تو اندر کی طرف سے اسے بند کر لیتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر لوگوں کو میری خبر ہو جائے تو مجھ تک ابو رافع کو قتل کرنے سے پہلے نہ آ سکیں۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک تاریک مکان میں اپنے بچوں کو درمیان سو رہا ہے۔ چونکہ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ کس جگہ پر ہے اس لیے میں نے ابو رافع کہہ کر آواز دی۔ اس نے جواب دیا: تو کون ہے؟ میں آواز کی طرف جھکا اور اس پر تلوار سے زور دار وار کیا جبکہ میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اس ضرب سے کچھ کام نہ بنا۔ وہ چلانے لگا تو میں مکان سے باہر آ گیا۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر میں پھر اندر آیا اور میں نے کہا: اے ابو رافع! یہ کیسی آواز تھی؟ اس نے کہا: تیری ماں پر مصیبت پڑے، ابھی ابھی کسی نے اس مکان میں مجھ پر تلوار کا وار کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ کا بیان کہ میں نے پھر ایک اور بھرپور وار کیا مگر وہ بھی خالی گیا اگرچہ اس کو زخم لگ چکا تھا لیکن وہ اس سے مرا نہیں تھا، اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھی، خوب زور دیا تو وہ اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے مار ڈالا ہے تو میں ایک ایک دروازہ کھولتا ہوا سیڑھی تک پہنچ گیا۔ چاندنی رات تھی، یہ خیال کر کے کہ میں زمین پر پہنچ گیا ہوں نیچے پاؤں رکھا تو دھڑام سے نیچے آ گرا جس سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اپنی پگڑی سے اسے باندھا اور باہر نکل کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ اپنے دل میں کہا کہ میں یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک مجھے یقین نہ ہو جائے کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے، لہذا جب صبح کے وقت مرغ نے اذان دی تو موت کی خبر دینے والا دیوار پر کھڑا ہوا اور کہنے لگا: لوگو! میں تمہیں حجاز کے سوداگر ابو رافع کے مرنے کی خبر دیتا ہوں۔ یہ سنتے ہی میں اپنے ساتھیوں کی طرف چلا اور ان سے کہا: یہاں سے جلدی بھاگو۔ اللہ تعالٰی نے ابو رافع کو ہمارے ہاتھوں قتل کر دیا ہے۔ پھر وہاں سے نبی ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ کو تمام قصہ سنایا۔ آپ نے مجھے فرمایا: ’’اپنی ٹوٹی ہوئی پنڈلی پھیلاؤ‘‘ چنانچہ میں نے اپنی پنڈلی پھیلائی تو آپ نے اپنا دست مبارک اس پر پھیر دیا جس سے وہ ایسے ہو گئی گویا مجھے اس کی کبھی شکایت ہی نہ تھی۔