تشریح:
1۔ 10 ہجری میں حجۃ الوداع سے فراغت کے بعد11 ہجری ماہ ربیع الاول میں آپ کی وفات ہوئی جبکہ غزوہ اُحد 3ہجری میں ہوا، اس لیے راوی کا یہ کہنا کہ غزوہ اُحد کے آٹھ برس بعد شہدائے احد پر نماز جنازہ پڑھی، یہ صحیح نہیں ہوسکتا، البتہ آٹھویں برس صحیح ہے۔
2۔ زندوں کا رخصت کرنا تو ظاہر ہے کیونکہ یہ واقعہ آپ کی حیات طیبہ کے آخری سال کا ہے اور مردوں کو الوداع کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب جسد عنصری کے ساتھ ان کی زیارت نہیں ہوسکے گی جیسا کہ دنیا میں ہوا کرتی تھی۔
3۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اگرچہ وفات کے بعد بھی زندہ ہیں لیکن اخروی زندگی دنیا کی زندگی سے مختلف ہے۔ (فتح الباري:436/7)
4۔ چونکہ اس حدیث میں شہدائے اُحد کا ذکر تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان فرمایا ہے کہ گویا آپ نے درج ذیل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے اس حدیث کو ذکر کیا ہے: ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے ہیں انھیں ہرگز مردہ گمان نہ کریں بلکہ وہ اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور انھیں رزق دیا جاتا ہے۔‘‘ (آل عمران:169:3) قبل ازیں ہم اس حدیث سے متعلق احکام ومسائل بیان کرآئے ہیں۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1344)