قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ المُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} [آل عمران: 121] وَقَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: {وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ، إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ القَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ، وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الكَافِرِينَ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ، وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ المَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ} [آل عمران: 140] وَقَوْلِهِ: {وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ} [آل عمران: 152] تَسْتَأْصِلُونَهُمْ قَتْلًا {بِإِذْنِهِ حَتَّى إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الأَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا أَرَاكُمْ مَا تُحِبُّونَ مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ص:94] لِيَبْتَلِيَكُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى المُؤْمِنِينَ} [آل عمران: 152] وَقَوْلِهِ: (وَلاَ تَحْسِبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا) الآيَةَ

4043. حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَقِينَا الْمُشْرِكِينَ يَوْمَئِذٍ وَأَجْلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا مِنْ الرُّمَاةِ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ وَقَالَ لَا تَبْرَحُوا إِنْ رَأَيْتُمُونَا ظَهَرْنَا عَلَيْهِمْ فَلَا تَبْرَحُوا وَإِنْ رَأَيْتُمُوهُمْ ظَهَرُوا عَلَيْنَا فَلَا تُعِينُونَا فَلَمَّا لَقِينَا هَرَبُوا حَتَّى رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ فِي الْجَبَلِ رَفَعْنَ عَنْ سُوقِهِنَّ قَدْ بَدَتْ خَلَاخِلُهُنَّ فَأَخَذُوا يَقُولُونَ الْغَنِيمَةَ الْغَنِيمَةَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَبْرَحُوا فَأَبَوْا فَلَمَّا أَبَوْا صُرِفَ وُجُوهُهُمْ فَأُصِيبَ سَبْعُونَ قَتِيلًا وَأَشْرَفَ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ فَقَالَ لَا تُجِيبُوهُ فَقَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ قَالَ لَا تُجِيبُوهُ فَقَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ إِنَّ هَؤُلَاءِ قُتِلُوا فَلَوْ كَانُوا أَحْيَاءً لَأَجَابُوا فَلَمْ يَمْلِكْ عُمَرُ نَفْسَهُ فَقَالَ كَذَبْتَ يَا عَدُوَّ اللَّهِ أَبْقَى اللَّهُ عَلَيْكَ مَا يُخْزِيكَ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ اعْلُ هُبَلُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجِيبُوهُ قَالُوا مَا نَقُولُ قَالَ قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزَّى لَكُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجِيبُوهُ قَالُوا مَا نَقُولُ قَالَ قُولُوا اللَّهُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلَى لَكُمْ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ وَالْحَرْبُ سِجَالٌ وَتَجِدُونَ مُثْلَةً لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور سورئہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور وہ وقت یاد کیجئے ، جب آپ صبح کو اپنے گھروں کے پاس سے نکلے ، مسلمانوں کو لڑائی کے لیے مناسب ٹھکا نوں پر لے جاتے ہوئے اور اللہ بڑا سننے والا ہے ، بڑاجاننے والاہے ۔ “ اور اسی سورت میںاللہ عزوجل کا فرمان ” اور ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو ، تمہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہوگے ۔ اگر تمہیں کوئی زخم پہنچ جائے تو ان لوگوں کو بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے اور ہم ان دنوں کی الٹ پھیر تو لوگوں کے درمیان کرتے ہی رہتے ہیں ، تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ کو شہید بنائے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا اور تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو میل کچیل سے صاف کردے اور کافروں کو مٹادے ۔ کیا تم اس گمان میں ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ، حالانکہ ابھی اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو نہیں جانا جنہوں نے جہاد کیا اور نہ صبر کرنے والوں کو جانا اور تم تو موت کی تمنا کررہے تھے اس سے پہلے کہ اس کے سامنے آؤ ۔ سوا س کو اب تم نے خوب کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور یقینا تم سے اللہ نے سچ کردکھایا اپنا وعدہ ، جب کہ تم انہیں اس کے حکم سے کررہے تھے ، یہاں تک کہ جب تم خود ہی کمزور پڑگئے اور آپس میں جھگڑنے لگے ۔ حکم رسول کے بارے میں اور تم نے نافرمانی کی بعد اس کے کہ اللہ نے دکھا دیا تھا جو کچھ کہ تم چاہتے تھے ۔ پھر اللہ نے تم کو ان میں سے پھیر دیا تاکہ تمہاری پوری آ زمائش کرے اور اللہ نے تم سے درگزر کی اور اللہ ایمان لانے والوں کے حق میں بڑا فضل والا ہے “ ( اور آیت ) ” اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ مت خیال کرو ۔ “ آخر آیت تک ۔تشریح:آیات مذکورہ میں جنگ احد کے کچھ مختلف کوائف پر اشارات ہیں مورخہ17شوال 3ھ میں احد پہاڑ کے قریب یہ جنگ ہوئی آنحضرتﷺ کا لشکر ایک ہزار مردوں پر مشتمل تھا جس میں سے تین سو منافق واپس لوٹ گئے تھے مشرکین کا لشکر تین ہزار تھا رسول اللہ ﷺ نے پچاس سپاہیوں کا ایک دستہ حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کی ما تحتی میں احد کی ایک گھاٹی کی حفاظت پر مقرر فرمایا تھا اور تاکید کی تھی کہ ہمارا حکم آئے بغیر ہر گز یہ گھاٹی نہ چھوڑیں ہماری ہار ہو یا جیت ہو تم لوگ یہیں جمے رہو جب شروع میں مسلمانوں کو فتح ہونے لگی تو ان لشکریوں میں سے اکثر نے فتح ہو جانے کے خیال میں وہ درہ خالی چھوڑ دیا جس سے مشرکین نے پلٹ کر مسلمانوں کی پشت پر حملہ کیا اور مسلمانوں کو وہ نقصان عظیم پہنچا جو تاریخ میں مشہور ہے احادیث ذیل میں جنگ احد سے متعلق کو ائف بیان کئے گئے ہیں حافظ صاحب فرماتے ہیں: قَالَ الْعُلَمَاءُ وَكَانَ فِي قِصَّةِ أُحُدٍ وَمَا أُصِيبَ بِهِ الْمُسْلِمُونَ فِيهَا مِنَ الْفَوَائِدِ وَالْحِكَمِ الرَّبَّانِيَّةِ أَشْيَاءٌ عَظِيمَةٌ مِنْهَا تَعْرِيفُ الْمُسْلِمِينَ سُوءَ عَاقِبَةِ الْمَعْصِيَةِ وَشُؤْمِ ارْتِكَابِ النَّهْيِ لِمَا وَقَعَ مِنْ تَرْكِ الرُّمَاةِ مَوْقِفَهُمُ الَّذِي أَمَرَهُمُ الرَّسُولُ أَنْ لَا يَبْرَحُوا مِنْهُ وَمِنْهَا أَنَّ عَادَةَ الرُّسُلِ أَنْ تُبْتَلَى وَتَكُونَ لَهَا الْعَاقِبَةُ كَمَا تَقَدَّمَ فِي قِصَّةِ هِرَقْلَ مَعَ أَبِي سُفْيَانَ وَالْحِكْمَةُ فِي ذَلِكَ أَنَّهُمْ لَوِ انْتَصَرُوا دَائِمًا دَخَلَ فِي الْمُؤْمِنِينَ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ وَلَمْ يَتَمَيَّزِ الصَّادِقُ مِنْ غَيْرِهِ وَلَوِ انْكَسَرُوا دَائِمًا لَمْ يَحْصُلِ الْمَقْصُودُ مِنَ الْبَعْثَةِ فَاقْتَضَتِ الْحِكْمَةُ الْجَمْعَ بَيْنَ الْأَمْرَيْنِ لِتَمْيِيزِ الصَّادِقِ مِنَ الْكَاذِبِ وَذَلِكَ أَنَّ نِفَاقَ الْمُنَافِقِينَ كَانَ مَخْفِيًّا عَنِ الْمُسْلِمِينَ فَلَمَّا جَرَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ وَأَظْهَرَ أَهْلُ النِّفَاقِ مَا أَظْهَرُوهُ مِنَ الْفِعْلِ وَالْقَوْلِ عَادَ التَّلْوِيحُ تَصْرِيحًا وَعَرَفَ الْمُسْلِمُونَ أَنَّ لَهُمْ عَدُوًّا فِي دُورِهِمْ فَاسْتَعَدُّوا لَهُمْ وَتَحَرَّزُوا مِنْهُمْ الخ( فتحالباری)یعنی علماء نے کہا ہے کہ احد کے واقعہ میں بہت سے فوائد اور بہت سی حکمتیں ہیں جو اہمیت کے لحاظ سے بڑی عظمت رکھتی ہیں ان میں سے ایک یہ کہ مسلمانوں کو معصیت اور منہیات کے ارتکاب کا نتیجہ بد بدلا دیا جائے تا کہ آئندہ وہ ایسا نہ کریں کچھ تیر اندازوں کو رسول اللہ ﷺ نے ایک گھاٹی پر مقرر فرما کر سخت تاکید فرمائی تھی کہ ہماری جیت ہو یا ہار ہمارا حکم آئے بغیر تم اس گھاٹی سے مت ہٹنا‘مگر انہوں نے نافرمانی کی اور مسلمانوں کی اول مرحلہ پر فتح دیکھ کر وہ اموال غنیمت لوٹنے کے خیال سے گھاٹی کو چھوڑ کر میدان میں آ گئے اس نافرمانی کا جو خمیازہ سارے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا وہ معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ نافرمانی اور معصیت کے ارتکاب کا نتیجہ ایسا ہی ہوتا ہے اور ان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے کہ رسولوں کو آزمایا جاتا ہے اور آخر انجام بھی ان ہی کی فتخ ہوتی ہے جیسا کہ ہرقل اور ابوسفیان کے قصہ میں گزر چکا ہے اگر ہمیشہ رسولوں کے لئے مدد ہی ہوتی رہے تو مومنوں میں غیر مومن بھی داخل ہوسکتے ہیں اور صادق اور کاذب لوگوں میں تمیز اٹھ سکتی ہے اور اگر وہ ہمیشہ ہارتے ہی رہیں تو بعثت کا مقصود فوت ہو جاتا ہے پس حکمت الٰہی کا تقاضا و شکست ہر دور کے درمیان ہوا تاکہ صادق اور کاذب میں فرق ہوتا رہے منافقیں کا نفاق پہلے مسلمانوں پر محفی تھا اس امتحان نے ان کو ظاہر کر دیا اور انہوں نے اپنے قول اور فعل سے کھلے طور پر اپنے نفاق کو ظاہر کر دیا تب مسلمانوں پر ظاہر ہوگیا کہ ان کے گھر وں ہی میں ان کے دشمن چھپے ہوئے ہیں جن سے پرہیز کرنا لازم ہے آج کل بھی ایسے نام نہاد مسلمان موجود ہیں جو نمازو روزہ کرتے ہیں مگر وقت آنے پر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ غداری کرتے رہتے ہیں ایسے لوگوں سے ہر وقت چوکنا رہنا ضروری ہے نفاق بہت ہی برا والا حصہ ’’ویل‘‘سزا کے لیے تجویز ہونا بتلایا ہے ہر مسلمان کو پانچوں وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے اللھم اعوذبک من النفاق و الشقاق وسوء الا خلاق اے اللہ!میں نفاق سے اور آپس کی پھوٹ سے اور برے اخلاق سے تیری پناہ چاہتا ہوں آمین یا رب العالمین

4043.

حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جنگ اُحد کے موقع پر جب ہمارا مشرکین سے آمنا سامنا ہوا تو نبی ﷺ نے تیر ندازوں کا ایک دستہ عبداللہ بن جبیر ؓ کی سرکردگی میں تعینات فرمایا اور انہیں یہ حکم دیا: ’’تم نے اپنی جگہ پر برقرار رہنا ہے۔ اگر تم دیکھو کہ ہم نے مشرکین پر غلبہ حاصل کر لیا ہے تو بھی اس جگہ کو نہیں چھوڑنا اور اگر تم دیکھو کہ وہ ہم پر غالب آ گئے ہیں تو بھی ہماری مدد کے لیے نہیں آنا۔‘‘  جب ہم نے ان سے مقابلہ کیا تو وہ بھاگ نکلے۔ میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑیوں پر بڑی تیزی کے ساتھ دوڑتی جا رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑے اٹھائے ہوئے تھے اور ان کے پازیب دکھائی دے رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر درے پر تعینات تیر اندازوں نے کہنا شروع کر دیا کہ دوڑو اور مال غنیمت حاصل کرو۔ حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ نے ان سے کہا: مجھے نبی ﷺ نے تاکید کی تھی کہ تم نے اپنی جگہ کو نہیں چھوڑنا لیکن ان کے ساتھیوں نے ان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کی حکم عدولی کے نیتجے میں مسلمانوں کو شکست ہوئی اور ستر (70) مسلمان شہید ہو گئے۔ اس کے بعد ابوسفیان نے پہاڑی سے آواز دی: کیا تمہارے ساتھ محمد (ﷺ) موجود ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے کوئی جواب نہ دے۔‘‘  پھر اس نے پوچھا: کیا تمہارے ساتھ ابن ابی قحافہ ؓ موجود ہیں؟ آپ ﷺ نے اس کا جواب دینے سے بھی منع کر دیا۔ ابو سفیان نے پھر کہا: کیا تمہارے ہاں ابن خطاب موجود ہیں؟ اس کے بعد وہ خود ہی کہنے لگا کہ یہ سب قتل کر دیے گئے ہیں۔ اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔ اس پر حضرت عمر ؓ بے قابو ہو گئے اور فرمایا: اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالٰی نے تمہیں ذلیل کرنے کے لیے انہیں ابھی باقی رکھا ہے۔ ابوسفیان نے کہا: اے ہبل! تو بلند ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس کا جواب دو۔‘‘  صحابہ نے پوچھا: ہم کیا جواب دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم کہو: اللہ سب سے بلند اور بزرگ و برتر ہے۔‘‘  ابوسفیان نے کہا: ہمارے پاس عزیٰ ہے اور تمہارے پاس کوئی عزیٰ نہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس کا جوب دو۔‘‘ صحابہ نے عرض کی: کیا جواب دیں؟ آپ نے فرمایا: ’’کہو اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہاری کوئی مولیٰ نہیں۔‘‘ ابوسفیان نے کہا: آج کے دن بدر ک دن کا بدلہ ہے اور لڑائی ڈول کی طرح ہے، نیز تم اپنے مقتولین میں کچھ لاشوں کا مثلہ کیا ہوا پاؤں گے۔ میں نے اس کا حکم نہیں دیا تھا اور نہ مجھے اس کا افسوس ہے۔