تشریح:
1۔ حضرت جابر ؓ رسول اللہ ﷺ کو اس خیال سے قرض خواہوں کے پاس لائے تھے کہ وہ آپ کا لحاظ کریں گے اور کچھ قرض معاف کردیں گے لیکن اس کا نتیجہ برعکس نکلا۔ چونکہ وہ یہودی تھے اور دنیا داری کے رگ وریشے میں رچ بس چکی تھی۔ وہ یہ سمجھے کہ رسول اللہ ﷺ کی جابر ؓ ہر نظر عنایت ہے اگر جابر ؓ کے والد گرامی کا مال کافی نہ ہوا تو باقی قرض خود رسول اللہ ﷺ اپنے پاس سے ادا کردیں گے، اس لیے انھوں نے ادائیگی کے لیے تقاضا مزید سخت کردیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی دعا قبول فرمائی اور مال میں اس قدر برکت پڑگئی کہ قرض کی ادائیگی کے بعد کافی کھجوریں بچ گئیں۔
2۔اس حدیث میں غزوہ احد کے موقع پر حضرت جابر ؓ کے والد گرامی کی شہادت کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ ایک حدیث میں حضرت جابر کی فضیلت بایں طور واقع ہوئی ہے: حضرت جابر کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ ملے تو میں انتہائی افسردہ تھا۔رسول اللہ ﷺ نے وجہ پوچھی تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہﷺ !میرے والد گرامی غزوہ احد میں شہید ہو گئے ہیں اور اپنے پیچھے اہل وعیال اور کافی قرض چھوڑگئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تجھے بتاؤں کہ پروردگارنے تیرے والد کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر سے براہ راست گفتگو نہیں فرمائی۔تیرے والد کو زندہ کیا اور اس سے بلا واسطہ کلام کیا اور فرمایا: میرے بندے!کسی خواہش کا اظہار کرو۔ تاکہ میں اسے پورا کروں۔ انھوں نے عرض کی۔اے اللہ ! مجھے زندہ کر کے دنیا میں بھیج دے تاکہ تیرے راستے میں دوبارہ شہید ہو جاؤں۔ اللہ نے فرمایا: یہ تو میرے ضابطے اور قانون کے خلاف ہے۔‘‘ یہ آیت کریمہ ان کے متعلق نازل ہوئی:’’جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید ہو گئے ہیں انھیں ہر گز مردہ گمان نہ کریں۔‘‘(آل عمران:169/3۔ و جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:3010)
3۔ پہلی حدیث میں حضرت جابر ؓنے بہنوں کا ذکر کیا تھا جبکہ اس حدیث میں چھ کا بیان ہے؟ دراصل حضرت جابر ؓکی کل نو بہنیں تھیں۔ ان میں سے تین شادی شدہ تھیں جو اپنے خاوندوں کے پاس رہتی تھیں اور چھ کنواریاں تھیں جو حضرت جابر کے پاس تھیں۔ (فتح الباري:447/7)