تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خودرعل اور ذکوان قبائل عرب نے رسول اللہ ﷺ سے مدد مانگی تھی جبکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ خود عامر بن طفیل نے مجاہدین کے خلاف ان قبائل سے مدد مانگی تھی۔ ان روایات میں تضاد نہیں ہے کیونکہ ظاہری طور پررعل اور ذکوان نے اپنے اسلام کا اظہار کیا اور دشمنوں کے خلاف رسول اللہ ﷺ سے مدد مانگی لیکن باطن میں کفر چھپائے رکھا اور ان مجاہدین کے خلاف غداری کی اوردھوکے سے انھیں شہید کردیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قبیلہ بنو سلیم کے دوسرے لوگوں سے عامر بن طفیل نے مدد مانگی ہو تاکہ مجاہدین قراء کا مقابلہ کرکے ان کو شہید کردیاجائے۔
2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس قصے میں بنولحیان کا ذکرکسی راوی کا وہم ہے کیونکہ ان کا ذکر غزوہ رجیع میں ہوا ہے جو حضرت خبیب ؓ کے قصے سے متعلق ہے وہ بئرمعونہ کے حادثے میں شامل تھے۔ (فتح الباري:483/7) ان قبائل کا جرم اتنا سنگین تھا کے ان کے لیے رسول اللہ ﷺ نے بددعا فرمائی اور ایسا کرنا ضروری تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی بددعا قبول فرمائی اور یہ قبائل صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ الا ما شاء اللہ۔