قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِيعِ، وَرِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَبِئْرِ مَعُونَةَ، وَحَدِيثِ عَضَلٍ، وَالقَارَةِ، وَعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ، وَخُبَيْبٍ وَأَصْحَابِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ: «أَنَّهَا بَعْدَ أُحُدٍ»

4093. حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فِي الْخُرُوجِ حِينَ اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْأَذَى فَقَالَ لَهُ أَقِمْ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَطْمَعُ أَنْ يُؤْذَنَ لَكَ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنِّي لَأَرْجُو ذَلِكَ قَالَتْ فَانْتَظَرَهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ظُهْرًا فَنَادَاهُ فَقَالَ أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّمَا هُمَا ابْنَتَايَ فَقَالَ أَشَعَرْتَ أَنَّهُ قَدْ أُذِنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ الصُّحْبَةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّحْبَةَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدِي نَاقَتَانِ قَدْ كُنْتُ أَعْدَدْتُهُمَا لِلْخُرُوجِ فَأَعْطَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَاهُمَا وَهِيَ الْجَدْعَاءُ فَرَكِبَا فَانْطَلَقَا حَتَّى أَتَيَا الْغَارَ وَهُوَ بِثَوْرٍ فَتَوَارَيَا فِيهِ فَكَانَ عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ غُلَامًا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الطُّفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَةَ أَخُو عَائِشَةَ لِأُمِّهَا وَكَانَتْ لِأَبِي بَكْرٍ مِنْحَةٌ فَكَانَ يَرُوحُ بِهَا وَيَغْدُو عَلَيْهِمْ وَيُصْبِحُ فَيَدَّلِجُ إِلَيْهِمَا ثُمَّ يَسْرَحُ فَلَا يَفْطُنُ بِهِ أَحَدٌ مِنْ الرِّعَاءِ فَلَمَّا خَرَجَ خَرَجَ مَعَهُمَا يُعْقِبَانِهِ حَتَّى قَدِمَا الْمَدِينَةَ فَقُتِلَ عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ يَوْمَ بِئْرِ مَعُونَةَ وَعَنْ أَبِي أُسَامَةَ قَالَ قَالَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ فَأَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ لَمَّا قُتِلَ الَّذِينَ بِبِئْرِ مَعُونَةَ وَأُسِرَ عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ قَالَ لَهُ عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ مَنْ هَذَا فَأَشَارَ إِلَى قَتِيلٍ فَقَالَ لَهُ عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ هَذَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ فَقَالَ لَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدَ مَا قُتِلَ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْأَرْضِ ثُمَّ وُضِعَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرُهُمْ فَنَعَاهُمْ فَقَالَ إِنَّ أَصْحَابَكُمْ قَدْ أُصِيبُوا وَإِنَّهُمْ قَدْ سَأَلُوا رَبَّهُمْ فَقَالُوا رَبَّنَا أَخْبِرْ عَنَّا إِخْوَانَنَا بِمَا رَضِينَا عَنْكَ وَرَضِيتَ عَنَّا فَأَخْبَرَهُمْ عَنْهُمْ وَأُصِيبَ يَوْمَئِذٍ فِيهِمْ عُرْوَةُ بْنُ أَسْماءَ بْنِ الصَّلْتِ فَسُمِّيَ عُرْوَةُ بِهِ وَمُنْذِرُ بْنُ عَمْرٍو سُمِّيَ بِهِ مُنْذِرًا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 ابن اسحاق نے بیان کیا کہ ہم سے عاصم بن عمر نے بیان کیا کہ غزوئہ رجیع غزوہ احد کے بعد پیش آیا۔رجیع ایک مقام کا نام ہے ہذیل کی بستیوں میں سے یہ غزوہ صفر4ھ میں جنگ احدکے بعد ہوا تھا بیئرمعونہ اور عسفان کے درمیان ایک مقام ہے وہاں قاری صحابہ کو رعل اور ذکوان قبائل نے دھوکہ سے شہید کر دیا تھا عضل اور قارہ بھی عرب کے دو قبائل کے نام ہیں ان کا قصہ غزوۂ رجیع میں ہوا۔

4093.

حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب مکہ مکرمہ میں ابوبکر ؓ پر کفار کی سختیاں زیادہ ہو گئیں تو انہوں نے نبی ﷺ سے ہجرت کی اجازت مانگی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’‘ابھی ٹھہرے رہو۔‘‘ انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو بھی اجازت ملنے کی امید ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، میں بھی ہجرت کی اجازت کا امیدوار ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ پھر حضرت ابوبکر ؓ انتظار کرنے لگے۔ آخر ایک دن رسول اللہ ﷺ ظہر کے وقت تشریف لائے۔ آپ نے حضرت ابوبکر ؓ کو پکارا اور فرمایا: ’’جو اہل خانہ آپ کے پاس ہیں انہیں ایک طرف کر دو۔‘‘ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: اور کوئی نہیں صرف دو بیٹیاں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں علم ہے کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔‘‘ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا مجھے رفاقت نصیب ہوگی؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، تم میرے ساتھ چلو گے۔‘‘ عرض کی: اللہ کے رسول! میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں اور میں نے انہیں ہجرت کے لیے تیار کر رکھا ہے، چنانچہ انہوں نے ایک اونٹنی، جس کا نام جدعاء تھا، نبی ﷺ کو دے دی۔ دونوں بزرگ سوار ہو کر چل پڑے حتی کہ غار ثور تک پہنچ گئے اور اس غار میں دونوں چھپے رہے۔ حضرت عامر بن فہیرہ جو حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے مادری بھائی عبداللہ بن طفیل بن سخبرہ کے غلام تھے، یہ (عامر) حضرت ابوبکر ؓ کی دودھ دینے والی اونٹنی کو صبح و شام چرانے کے لیے لے جاتے، رات کے آخری حصے میں ان دونوں (رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ) کے پاس آتے۔ پھر اسے چرانے کے لیے صبح صبح لے جاتے۔ اس طرح کسی چرواہے کو بھی اس کا علم نہ ہو سکا۔ پھر جب یہ دونوں بزرگ غار ثور سے نکل کر روانہ ہوئے تو حضرت عامر بن فہیرہ ؓ بھی ان کے ساتھ ہی نکلے۔ وہ دونوں حضرات اس کو باری باری اپنا ردیف بناتے تھے یہاں تک کہ مدینہ طیبہ پہنچ گئے۔ بئر معونہ کے حادثے میں حضرت عامر بن فہیرہ ؓ بھی شہید ہو گئے تھے۔ ابو اسامہ نے کہا کہ مجھے ہشام بن عروہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد گرامی (حضرت عروہ) نے بتایا: جب بئر معونہ کے حادثے میں یہ حضرات شہید کر دیے گئے اور حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو قیدی بنا لیا گیا تو عامر بن طفیل نے ایک مقتول کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: یہ کون ہیں؟ عمرو بن امیہ ؓ نے اسے بتایا کہ یہ حضرت عامر بن فہیرہ ؓ ہیں۔ اس نے کہا: میں نے اسے شہید ہونے کے بعد دیکھا کہ اسے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا تھا۔ میں نے اوپر نظر اٹھائی تو اس کی لاش زمین و آسمان کے درمیان تھی۔ پھر اسے زمین پر رکھ دیا گیا۔ جب نبی ﷺ کو ان شہداء کی اطلاع ملی تو آپ نے ان حضرات کو خبر دیتے ہوئے فرمایا: ’’تمہارے ساتھی شہید ہو چکے ہیں اور انہوں نے اپنے رب سے درخواست کی ہے: اے ہمارے رب! ہمارے بھائیوں کو اس امر کی اطلاع دے دے کہ ہم تیرے پاس پہنچ کر خوش ہیں اور تو ہم سے راضی ہے۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالٰی نے ان کی طرف سے ہمیں یہ اطلاع کر دی ہے۔ اسی حادثے میں حضرت عروہ بن اسماء بن صلت ؓ بھی شہید کر دیے گئے تھے۔ (زبیر ؓ کے ہاں جب بچہ پیدا ہوا تو اس کا نام) عروہ، انہی عروہ بن اسماء کے نام پر رکھا گی ۔ حضرت منذر بن عمرو ؓ بھی اسی حادثے میں شہید کیے گئے تھے تو (زبیر ؓ کے دوسرے صاجزادے کا نام) منذر انہی کے نام پر رکھا گیا تھا۔