تشریح:
1۔ عبد اللہ بن طفیل ؓ حضرت عائشہ ؓ کا مادری بھائی اس بنا پر تھا کہ حضرت ام رومان ؓ پہلے ان کے باپ کے نکاح میں تھیں۔ باپ بیٹا دونوں مکہ مکرمہ میں آئے اور ابو بکر ؓ کے حلیف بن گئے ۔ جب طفیل فوت ہوا تو حضرت ابو بکرؓ نے اُم رومان ؓ سے شادی کر لی اور اس سے حضرت عبدالرحمٰن ؓ اور حضرت عائشہ ؓ پیدا ہوئے۔ اس بنا پر عبد اللہ بن طفیل ؓ ان کے ماں کی طرف سے بھائی ہیں۔
2۔ حضرت عامر بن فہیرہ ؓ شہید ہوئے تھے اس لیے ہجرت کا ذکر ان کے تعارف کے طور پر ہوا ہے کہ انھوں نے سفر ہجرت کے دوران میں دوبزرگوں کی تمام خدمات سرانجام دیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی لاش کا یہ اکرام فرمایا کہ وہ آسمان کی طرف اٹھالی گئی۔ پھر زمین پر رکھ دی گئی شہدائے کرام کے یہی مراتب ہیں جو صرف انھی کو نصیب ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہو جائیں انھیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے۔‘‘ (البقرہ:154/2) حضرت عامر بن فہیرہ ؓ کی لاش کو آسمان کی طرف اٹھانے اور زمین پر رکھنے کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ ان کی تعظیم و توقیر مقصود تھی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اس سے کافر بہت مرعوب ہوئے۔
3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک فال کے طور پر اپنی اولاد کے نام نیک لوگوں کے نام کے مطابق رکھنے میں کوئی حرج نہیں تاکہ بڑے ہو کر وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں، جیسا کہ حضرت زبیر بن عوام ؓ نے ایسا کیا تھا۔ واللہ اعلم۔