قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِيَ الأَحْزَابُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ: كَانَتْ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ أَرْبَعٍ

4108. حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ وَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَنَسْوَاتُهَا تَنْطُفُ قُلْتُ قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَيْنَ فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنْ الْأَمْرِ شَيْءٌ فَقَالَتْ الْحَقْ فَإِنَّهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ فِي احْتِبَاسِكَ عَنْهُمْ فُرْقَةٌ فَلَمْ تَدَعْهُ حَتَّى ذَهَبَ فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ خَطَبَ مُعَاوِيَةُ قَالَ مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا الْأَمْرِ فَلْيُطْلِعْ لَنَا قَرْنَهُ فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ قَالَ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَهَلَّا أَجَبْتَهُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَحَلَلْتُ حُبْوَتِي وَهَمَمْتُ أَنْ أَقُولَ أَحَقُّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْكَ مَنْ قَاتَلَكَ وَأَبَاكَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَخَشِيتُ أَنْ أَقُولَ كَلِمَةً تُفَرِّقُ بَيْنَ الْجَمْعِ وَتَسْفِكُ الدَّمَ وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ فَذَكَرْتُ مَا أَعَدَّ اللَّهُ فِي الْجِنَانِ قَالَ حَبِيبٌ حُفِظْتَ وَعُصِمْتَ قَالَ مَحْمُودٌ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَنَوْسَاتُهَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

احزاب حزب کی جمع ہے ۔ حزب گروہ کو کہتے ہیں ۔ اس جنگ میں ابو سفیان عرب کے بہت سے گروہوں کو بہکا کر مسلمانوں پر چڑھا لایا تھا اس لیے اس کا نام جنگ احزاب ہوا۔ آنحضرت ﷺنے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی رائے سے مدینہ کے گرد خندق کھدوائی ۔ اس کے کھودنے میں آپ بذات خاص بھی شریک رہے ۔ کافروں کا لشکردس ہزارکا تھا اور مسلمان کل تین ہزار تھے ۔ بیس دن تک کافر مسلمانوں کو گھیرے رہے۔ آخر اللہ تعالی نے ان پر آندھی بھیجی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ ابو سفیان کو ندامت ہوئی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اب سے کافر ہم پر چڑھائی نہیں کریں گے بلکہ ہم ہی ان پر چڑھائی کریں گے ۔ فتح الباری میں ہے کہ جنگ خندق 5 ھ میں ہوئی ۔ 4 ھ ایک اور حساب سے ہے جن کی تفصیل فتح الباری میں دیکھی جا سکتی ہے۔

4108.

حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں حضرت حفصہ بنت عمر‬ ؓ ک‬ے پاس گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا: آپ نے دیکھا کہ لوگوں نے کیا کیا ہے؟ مجھے تو حکومت کا کچھ حصہ بھی نہیں ملا۔ حضرت حفصہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: لوگوں کے اجتماع میں شرکت کرو۔ وہ تمہارا انتظارکر رہے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہارے رک جانے سے مزید اختلاف ہو گا۔ آخر کار ان کے اصرار کرنے پر وہ اجتماع میں گئے۔ جب لوگ حضرت معاویہ ؓ کی بیعت کر کے چلے گئے تو امیر معاویہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اس (خلافت کے) موضوع پر جس نے کوئی بات کرنی ہے وہ اپنا سر اٹھائے، یقینا ہم اس سے اور اس کے باپ سے خلافت کے زیادہ حق دار ہیں۔ حضرت حبیب بن مسلمہ ؓ نے کہا: اس وقت آپ نے اس بات کا جواب کیوں نہ دیا؟ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ میں نے تو گرہ کھول کر بات کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ انہیں جواب دوں: خلافت کا تم سے زیادہ حق دار وہ شخص ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کی سربلندی کے لیے جنگ لڑی تھی لیکن مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ مبادا میری اس بات سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف بڑھ جائے اور خونریزی ہو جائے اور میری طرف ایسی بات منسوب کر دی جائے جو میں نے نہ کہی ہو، نیز مجھے وہ اجروثواب یاد آ گیا جو صبر کرنے والوں کے لیے اللہ تعالٰی نے جنتوں میں تیار کر رکھا ہے۔ حبیب نے کہا: اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اورفتنوں سے بچ گئے۔ (راوی حدیث) محمود نے عبدالرزاق سے (نسواتها) کے بجائے (نوساتها) کے الفاظ نقل کیے ہیں۔