تشریح:
1۔ غزوہ احزاب میں اگرچہ باقاعدہ جنگ کی صورت نہیں تھی لیکن کفر نے ایک متحدہ محاذ کی شکل میں اسلام اور اہل اسلام کو ختم کرنے کے لیے مدینے پر چڑھائی کی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح و کامیابی سے ہمکنار کیا۔ انھوں نے خندق کھود کر شہر کو ان کے حملے سے محفوظ کر لیا تھا اور کفار اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے اور ناکام واپس لوٹ گئے۔
2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو حضرت ابن عمر ؓ کے اس ارشاد کی بنا پر پیش کیا جو انھوں نے حضرت امیر معاویہ ؓ کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ ’’تم سے زیادہ خلافت کا حق دار وہ ہے جس نے تم سے اور تمھارے باپ سے اسلام کی سر بلندی کے لیے جنگ لڑی تھی۔‘‘ یعنی غزوہ احد اور خندق کے دن معاویہ اور ان کے باپ ابو سفیان سے قتال کیا۔ اس مقابلے میں حضرت علی ؓ مہاجرین اور حاضرین خندق ؓ مراد ہیں جن میں حضرت ابن عمر ؓ بھی شامل تھے۔ اس اعتبار سے اس واقعے کو غزوہ خندق کے عنوان میں لایا گیا ہے
3۔ بنو ہاشم زہدہ وتقوی میں پیش تھے جبکہ بنو امیہ میں طاقت اور دولت تھی چنانچہ جب تک ان میں قوت رہی انھوں نے بنو ہاشم کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا۔ حضرت ابو سفیان ؓ تو آخر وقت تک مسلمانوں سے لڑتے رہے آخر فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔
4۔ حضرت ابن عمر ؓ کا موقف تھا کہ فاضل کی موجود گی میں مغضول کے ہاتھ پر بیعت کر لینا مسلمانوں کی خونریزی سے بہترہے اس لیے انھوں نے حضرت معاویہ ؓ اور ان کے بیٹے یزید سے بیعت کی۔
5۔بہرحال اس حدیث کی غزوہ خندق سے یہ مناسبت ہے کہ خلفائے راشدین ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ غزوہ خندق میں موجود تھے جبکہ ابو سفیان اور حضرت معاویہ ؓ اس وقت مخالف اسلام تھےاس مقام پر خلافت اور حکومت کے استحقاق سے بحث مقصود نہیں وہ ہم کتاب الاحکام میں بیان کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰ۔