تشریح:
1۔ جب غزوہ احزاب کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور کفار کوحسرت وناکامی کے ساتھ واپس کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمانوں کی عزت وناموس کی حفاظت کون کرے گا؟‘‘حضرت کعب بن مالک ؓ، حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ، اور حضرت حسان بن ثابت ؓ کھڑے ہوئے تو آپ نے حضرت حسان ؓ کا انتخاب کرکے فرمایا: ’’ان کی مذمت کرو، روح القدس، یعنی حضرت جبرئیل ؑ آپ کی مدد کریں گے۔‘‘ اس روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ قریظہ کے موقع پر حضرت حسسان ؓ سے یہ خدمت لی تھی۔ (فتح الباري:520/7)
2۔ حضرت حسان ؓ کا انتخاب اس لیے ہوا کہ انھیں میدان کارزار میں کودنے سے گھبراہٹ ہوتی تھی، اس لیے تیر وسنان سے دفاع کے بجائے زبان وبیان سے دفاع کا کام ان سے لیا جبکہ حضرت کعب بن مالک ؓ، اور حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ میدان جنگ میں تجربہ کار تھے۔ اس کی تائید درج ذیل واقعہ سے ہوتی ہے کہ غزوہ احزاب کے موقع پر عورتوں اوربچوں کو حضرت حسان ؓ کے ساتھ دفاع نامی قلعے میں رکھا گیا تھا۔ اتفاق سے ایک یہودی قلعے کے اندر آگیا توحضرت صفیہ بنت عبدالمطلب ؓ نے حضرت حسان ؓ سے کہا کہ یہ یہودی قلعے کا چکرلگا رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ تو مصروف ہیں، آپ جائیں اور اسے قتل کریں، حضرت حسان ؓ فرمایا: آپ جانتی ہیں کہ میں اس کام کا آدمی نہیں ہوں۔ اس کے بعد حضرت صفیہ ؓ نے خود اپنا کمر بند باندھا اور خیمے سے ایک لکڑی اٹھائی، پھر لکڑی سے اس یہودی کو مار مار کر اس کا خاتمہ کردیا۔ اس کے بعد حضرت حسان ؓ سے کہا کہ وہ مرا پڑا ہے، آپ جائیں اور اس کے کپڑے اور مال واسباب لے آئیں۔ چونکہ وہ مرد ہے، اس لیے میں نے اس کے ہتھیار نہیں اُتارے۔ حضرت حسان ؓ گویا ہوئے: مجھے اس کے ہتھیار اور سامان کی کوئی ضرورت نہیں۔ (السیرةالنبویة لابن ھشام:239/2)
3۔ بہرحال مذکورہ احادیث میں کسی نہ کسی طرح سے بنوقریظہ کے یہودیوں کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے غزوہ بنوقریظہ کے ذیل میں انھیں بیان فرمایا ہے۔
4۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہود مدینہ اپنی فطرت کے مطابق مسلمانوں کی بیخ کنی کے منصوبے بناتے رہتے تھے، اس لیے مدینہ طیبہ کو ان سانپوں سے پاک کرنا ضروری ہوگیا تھا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں قبائل سے مدینے کو پاک کردیا تاکہ مسلمان بلاخوف وخطر اسلام کی آبیاری کریں۔