تشریح:
1۔ مسلماً کو لام کے کسرہ اور فتحہ کے ساتھ دونوں طرح پڑھا گیا ہے اگر اسم فاعل کا صیغہ ہے تو اس کے معنی خاموش اور اگر اسم مفعول ہے تو اس کے معنی سلامتی کے ہیں۔
2۔ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت علی ؓ سے اس سلسلے میں مشورہ لیا تو انھوں نے فرمایا: اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ان کے علاوہ عورتیں بہت ہیں۔ آپ خواہ مخواہ پریشان نہ ہوں۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ بہت پریشان تھے۔ اس لیے انھوں نے تسلی کے لیے ایسا کہا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ سے حسد یا بغض کی وجہ سے یہ لفظ استعمال نہیں کیے تھے۔ حضرت عائشہ کو ان کے یہ الفاظ ناپسند ضرورتھےحافظ ابن حجر ؒ نے حلیہ ابی نعیم کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام زہری ولید بن عبدالملک کے پاس تھے۔ انھوں نے یہ آیت تلاوت کی:﴿وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾(النور:11/24) پھر کہا کہ اس مراد حضرت علی ؓ ہیں۔ امام زہری ؒ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ حضرت امیر کی اصلاح فرمائے! معاملہ ایسا نہیں بلکہ اس سے مراد عبد اللہ بن ابی ہے۔ عبدالملک کے بیٹے ہشام کا بھی حضرت علی ؓ کے متعلق یہی موقف تھا کہ وہ تہمت لگانے والوں میں ہیں لیکن امام زہری ؒ نے ڈنکے کی چوٹ اس بات کی تردید کی۔ (فتح الباري:544/7)
3۔ واقعہ افک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ بہت پریشان تھے۔ آپ نے اس سلسلے میں حضرت اسامہ حضرت بریرہ ؓ اور حضرت زینب ؓ سے استفسار فرمایا: یہ سب گھر کے افراد تھے۔ ان سب نے پر زور الفاظ میں سیدہ عائشہ ؓ کی پاکبازی کا بیان دیا۔ چوتھے گھر کے فرد حضرت علی ؓ تھے ان سے جب پوچھا گیا توانھوں نے اس الزام کی تردید یا تائید کرنے کے بجائے۔ رسول اللہ ﷺ کو پریشان اور رنجیدہ دیکھتے ہوئے اور آپ کی خوشنودی کا لحاظ رکھتے ہوئے۔ کہا:اللہ تعالیٰ آپ پر تنگی نہیں کرے گا۔ حضرت عائشہ ؓ کے علاوہ اور بہت عورتیں ہیں تاہم ان کی زبان سے بھی کوئی ایسا لفظ نہیں نکلا جس سے حضرت عائشہ ؓ پر لگائے گئے الزام کی تائید ہوتی ہو۔ یا حضرت عائشہ ؓ کی ذات یا پاکبازی پر کوئی حرف آتا ہو۔ روافض کا یہ پروپیگنڈا ہے کہ ان کے درمیان کوئی حسد و بغض تھا ایسا ہر گز نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔