تشریح:
1۔مذکورہ آیت کریمہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے متعلق ہے جیسا کہ خود حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4749) اس صورت میں حضرت عائشہ ؓ نے بطور فرض وتسلیم حسان بن ثابت ؓ کو اس آیت کا مصداق ٹھہرایا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ انھیں دنیا میں سزادے دی ہے شاید دوسری مرتبہ ان کو سزا نہ دی جائے۔ اس کے باوجود حضرت عائشہ ؓ حضرت حسان ؓ کی شان میں کسی بُرے کلمے کو گوارا نہیں کرتی تھی۔ ان سے تہمت لگانے میں غلطی ضرور ہوئی تھی لیکن انھوں نے توبہ کرلی اور اس کی سزا قبول کرلی۔ حضرت عائشہ ؓ کا دل ان کی طرف سے صاف ہوگیا تھا لیکن جب کبھی اس طرح کا ذکر آجاتا تو دل کا رنجیدہ ہونا ایک قدرتی بات تھی، اس بنا پر روایت میں ایک دوچبھتے ہوئے جملے غالباً اسی اثر کا نتیجہ ہیں۔ 2۔بہرحال حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک بطور تنصیص آیت کا مصداق عبداللہ بن ابی منافق ہے اور اس حدیث میں بطور فرض وتسلیم ہے تاکہ تنصیص کی خلاف ورزی نہ ہو۔ واللہ اعلم۔