تشریح:
1۔ ان دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کنویں کے پانی کا ایک ڈول منگوایا، اس میں کلی کی اور لعاب دہن ڈالا اور دعا بھی فرمائی، پھر اسے کنویں میں ڈال دیا۔موسیٰ بن عقبہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کنویں کی گہرائی میں ایک تیرگاڑا توپانی جوش مارنے لگا بہرحال آپ نے اس وقت یہ سب کام کیے تھے۔ (دلائل النبوة للبیهقي:167/4 حدیث:1448)
2۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے نبی کریم ﷺ! ہم نےآپ کو واضح فتح عطا کردی۔‘‘ (الفتح 1:48) اس فتح سے کیا مراد ہے، صلح حدیبیہ یا فتح مکہ؟ ہمارے رجحان کے مطابق اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے کیونکہ یہ فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ صلح کی وجہ سے لوگوں کو امن نصیب ہوا اور مشرکین سے جنگ وقتال ختم ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مشرکین سے فارغ ہوکر دیار عرب میں بے شمار فتوحات حاصل کیں اور لوگ جوقدرجوق اسلام قبول کرنے لگے۔ جو کوئی مسلمان ہونا چاہتا وہ بلا روک ٹوک مدینہ طیبہ کا رخ کرتا اور اسلام قبول کرتا، چنانچہ اس دوران میں حضرت خالد بن ولید ؓ اور عمرو بن عاص ؓ جیسے عظیم جرنیل مسلمان ہوکر مدینے پہنچے۔ صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں کی تعداد چودہ سو تھی۔ صلح کی برکات سے فتح مکہ تک یہ تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی۔ (فتح الباري:550/7) اس مؤقف کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت مجمع بن جاریہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ صلح حدیبیہ سے واپسی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کراع الغمیم کے مقام پر کھڑے ہوئے، لوگوں کو جمع کیا اور یہ آیت پڑھی:’’ہم نے آپ کو واضح فتح عطا کردی۔‘‘ ایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! کیا یہ فتح ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہی واضح فتح ہے۔‘‘ البتہ ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ سے مراد فتح مکہ ہے۔ (مسند أحمد:420/3) واللہ اعلم۔