تشریح:
1۔ قبل ازیں حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی حدیث میں تھاکہ رسول اللہ ﷺ نے کنویں سے پانی کا ڈول منگوایا، اس سے کلی کی، پھر دعا فرمائی اور اسے کنویں میں ڈال دیا جبکہ حدیث جابر ؓ میں ہے کہ آپ نے پانی کے برتن میں ہاتھ رکھا تو آپ کی انگلیوں سے چشمے کی طرح پانی اُبلنے لگا دراصل کئی ایک مواقع ہیں جہاں پانی کے متعلق معجزات کا ظہور ہوا۔ ان میں سےایک واقعہ حضرت جابر ؓ نے بیان کیا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر نماز عصر کے وقت پانی نہیں تھا، صرف ایک برتن میں تھوڑا سابچا ہوا پانی تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ ڈال کر اپنی انگلیوں کوپھیلادیا اور فرمایا: ’’وضو کرنےوالو! اللہ کی طرف سے اس میں برکت ڈال دی گئی ہے،آؤ اس سے وضو کرلو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأشربة، حدیث:5639) اس کی تفصیل مسند احمد میں ہے کہ صلح حدیبیہ کے وقت ایک آدمی تھوڑا سا پانی لے کرآیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے بڑے ٹب میں ڈالا، اس سے وضو کرنے کے بعد اسے کچھ وقت کے لیے چھوڑدیا گیا، لوگ وضو کرنے کے لیے اس پر ٹوٹ پڑے تو آپ نے انھیں آرام وسکون اختیار کرنے کا حکم دیا، پھر آپ نے ہاتھ رکھ دیا توآپ کی انگلیوں کے درمیان سےپانی نکلنے لگا، آپ نے فرمایا:’’اچھی طرح کرلو۔‘‘ (مسند أحمد:358/3۔)2۔ حافظ ا بن حجر ؒ نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں مبارک سے پانی پھوٹنے لگا تو لوگوں نےخوب سیر ہوکر پیا اور اس وضو کیا۔ اس وقت جو پانی بچ گیاتھا اس آپ نے پانی میں پھینک دیا تو وہ بھی پانی کی کثرت سے جوش مارنے لگا، اس طرح حضرت براء اورحضرت جابر ؓ کے دونوں واقعات کو ایک ہی قراردیا جا سکتاہے۔ (فتح الباري:551/7) واللہ اعلم۔