باب: اس بارے میں کہ نماز میں اپنے دائیں طرف نہ تھوکنا چاہیے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: It is forbidden to spit on the right side while in Salat (prayers))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
416.
حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابوسعید ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کی دیوار پر بلغم لگا ہوا دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے ایک سنگریزہ اٹھایا اور اسے صاف کر دیا، پھر فرمایا: ’’اگر کسی کو بلغم آءے تو وہ اسے سامنے کی جانب نہ تھوکے اور نہ دائیں جانب ڈالے بلکہ اپنی بائیں جانب یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے عنوان میں بحالت نماز دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت کا ذکر کیا ہے، جبکہ روایات مطلق ہیں، ان میں نماز کی قید نہیں ہے، تاہم دیگر روایات میں نماز کی قید موجود ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری حدیث انس 413 اور حدیث ابی ہریرہ ؓ 416 میں ہے، اس لیے امام بخاری ؒ کے نزدیک ان مطلق روایات کو مقید روایات پر محمول کیا جائے گا۔ نماز کے علاوہ دائیں جانب تھوکنا جائز ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق دیگر روایات کو دیکھنا ہو گا۔ 2۔ امام نووی ؒ نے اس کے متعلق مطلق طور بت ممانعت کا ذکر کیا ہے، خواہ مسجد میں وہ یا مسجد سے باہر نماز میں ہو یا نماز سے خارج۔ چنانچہ متعدد اسلاف سے اس کی ممانعت منقول ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نماز کے علاوہ بھی دائیں جانب تھوکنے کو ممنوع قراردیا ہے، حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی دائیں جانب نہیں تھوکا۔ حضرت عمر عبدالعزیز ؒ نے اپنے صاحبزادے کو دائیں جانب تھوکنے سے مطلق طور پر منع فرمایا۔ جو حضرات بحالت نماز کی قید لگاتے ہیں ان کی دلیل غالباً وہ روایت ہے جس میں ہے کہ نماز میں دائیں جانب فرشتہ ہوتا ہے۔ (صحیح البخاري،الصلاة، حدیث:416) یہ اس صورت میں ہو گا کہ جب نگرانی کرنے اور حسنات لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ فرشتہ مراد ہو، کیونکہ نگران اور کراماً کا تبین تو ہر وقت ہی دائیں جانب رہتے ہیں۔ (فتح الباري:661/1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں فی الصلاۃ کا لفظ بڑھا کر امام مالک ؒ کی تائید کی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک یہ ممانعت نماز کے ساتھ خاص ہے۔ ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کا موقف راجح ہے، کیونکہ بحالت نماز اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ نمازی کی دائیں جانب متعین کرتا ہے جو اس کے دل کی حفاظت کرتا ہے، اس لیے بحالت نماز دائیں جانب تھوکنا ممنوع اور بائیں جانب جائز ہے۔ واضح رہے کہ نمازی کو بائیں جانب تھوکنے کی اجازت اس وقت ہوگی، جب اس کے بائیں جانب کوئی نمازی نہ ہو، جیسا کہ ہم آئندہ حدیث میں اس کی وضاحت کریں گے، بائیں جانب تھوکنے کے جواز کے لیے مشہور ہے کہ بائیں جانب شیطان ہوتا ہےجو اس کے دل میں وساوس ڈالتا ہے یہ تھوک شیطان کے سر پر گرتا ہے اور یوں اس کی ذلت و رسوائی کا سامان ہوتا ہے۔ اس توجیہ کی بنیاد ایک روایت ہے جو اگرچہ مشہور ہے، لیکن بالکل ضعیف ہے، ملاحظہ ہو۔ المعجم الکبیر للطبراني ؒ 8/199، رقم الحدیث: 7808، الطبعة الثانیة
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
408
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
410
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
410
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
410
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابوسعید ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کی دیوار پر بلغم لگا ہوا دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے ایک سنگریزہ اٹھایا اور اسے صاف کر دیا، پھر فرمایا: ’’اگر کسی کو بلغم آءے تو وہ اسے سامنے کی جانب نہ تھوکے اور نہ دائیں جانب ڈالے بلکہ اپنی بائیں جانب یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے عنوان میں بحالت نماز دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت کا ذکر کیا ہے، جبکہ روایات مطلق ہیں، ان میں نماز کی قید نہیں ہے، تاہم دیگر روایات میں نماز کی قید موجود ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری حدیث انس 413 اور حدیث ابی ہریرہ ؓ 416 میں ہے، اس لیے امام بخاری ؒ کے نزدیک ان مطلق روایات کو مقید روایات پر محمول کیا جائے گا۔ نماز کے علاوہ دائیں جانب تھوکنا جائز ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق دیگر روایات کو دیکھنا ہو گا۔ 2۔ امام نووی ؒ نے اس کے متعلق مطلق طور بت ممانعت کا ذکر کیا ہے، خواہ مسجد میں وہ یا مسجد سے باہر نماز میں ہو یا نماز سے خارج۔ چنانچہ متعدد اسلاف سے اس کی ممانعت منقول ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نماز کے علاوہ بھی دائیں جانب تھوکنے کو ممنوع قراردیا ہے، حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی دائیں جانب نہیں تھوکا۔ حضرت عمر عبدالعزیز ؒ نے اپنے صاحبزادے کو دائیں جانب تھوکنے سے مطلق طور پر منع فرمایا۔ جو حضرات بحالت نماز کی قید لگاتے ہیں ان کی دلیل غالباً وہ روایت ہے جس میں ہے کہ نماز میں دائیں جانب فرشتہ ہوتا ہے۔ (صحیح البخاري،الصلاة، حدیث:416) یہ اس صورت میں ہو گا کہ جب نگرانی کرنے اور حسنات لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ فرشتہ مراد ہو، کیونکہ نگران اور کراماً کا تبین تو ہر وقت ہی دائیں جانب رہتے ہیں۔ (فتح الباري:661/1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں فی الصلاۃ کا لفظ بڑھا کر امام مالک ؒ کی تائید کی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک یہ ممانعت نماز کے ساتھ خاص ہے۔ ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کا موقف راجح ہے، کیونکہ بحالت نماز اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ نمازی کی دائیں جانب متعین کرتا ہے جو اس کے دل کی حفاظت کرتا ہے، اس لیے بحالت نماز دائیں جانب تھوکنا ممنوع اور بائیں جانب جائز ہے۔ واضح رہے کہ نمازی کو بائیں جانب تھوکنے کی اجازت اس وقت ہوگی، جب اس کے بائیں جانب کوئی نمازی نہ ہو، جیسا کہ ہم آئندہ حدیث میں اس کی وضاحت کریں گے، بائیں جانب تھوکنے کے جواز کے لیے مشہور ہے کہ بائیں جانب شیطان ہوتا ہےجو اس کے دل میں وساوس ڈالتا ہے یہ تھوک شیطان کے سر پر گرتا ہے اور یوں اس کی ذلت و رسوائی کا سامان ہوتا ہے۔ اس توجیہ کی بنیاد ایک روایت ہے جو اگرچہ مشہور ہے، لیکن بالکل ضعیف ہے، ملاحظہ ہو۔ المعجم الکبیر للطبراني ؒ 8/199، رقم الحدیث: 7808، الطبعة الثانیة
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے عقیل بن خالد کے واسطے سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے حمید بن عبدالرحمن سے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابوسعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کنکری سے اسے کھرچ ڈالا اور فرمایا: اگر تم میں سے کسی کو تھوکنا ہو تو اسے اپنے چہرے کے سامنے یا اپنے دائیں طرف نہ تھوکا کرو، البتہ اپنے بائیں طرف یا اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوک سکتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abd Hurairah and Abu Sa'id (RA): Allah's Apostle (ﷺ) saw some expectoration on the wall of the mosque; he took gravel and scraped it off and said, "If anyone of you wanted to spit, he should neither spit in front of him nor on his right but could spit either on his left or under his left foot."