تشریح:
1۔ دوران نماز میں اگر تھوکنے کی ضرورت پیش آجائے تو دو صورتیں پہلے بیان ہو چکی ہیں۔ ایک بائیں جانب اور دوسری بائیں پاؤں کے نیچے۔ اس کے آداب و شرائط بھی بیان ہو چکے ہیں، ایک تیسری صورت کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے، کہ اپنے کپڑے میں تھوک کر اسے مل دینا چاہیے مگر اس تیسری صورت کو امام بخاری ؒ نے مقید کیا ہے کہ کپڑے میں لے کر رگڑنے کی صورت اس وقت جب تھوک نمازی پر غالب آجائے اور نمازی اس کے غلبے کے وقت دائیں بائیں جانب کا امتیاز نہ کر سکے، ایسی مجبوری میں اسے کپڑے میں لے کر مل دینا چاہیے، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں جس قید کا ذکر کیا ہے، وہ حدیث میں موجودنہیں ۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں :’’عنوان کے الفاظ سے امام بخاری ؒ نے ان روایات کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن میں تھوک کے غلبے کی قید موجود ہے جیسا کہ امام مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے کہ ایسے حالات میں نمازی اپنی بائیں جانب یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوک لے لیکن اگر تھوک عجلت پر مجبور کرے تو اسے اپنے کپڑے میں اس طرح لے لے۔ پھر اس کے ایک کنارے کو دوسرے پررگڑدے اسی طرح ابو داؤد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نمازی اپنے کپڑے میں تھوکے پھر ایک کنارے کو دوسرے سے رگڑ دے۔ یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں لیکن امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں ان کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ جن احادیث میں یہ تفصیل نہیں انھیں مفصل احادیث پر محمول کیا جائے۔‘‘ (فتح الباري:665/1) واللہ أعلم۔ 2۔ امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے عناد ین سے بیشتر احادیث کے عموم کی تخصیص اطلاق کی تقیید یا خصوص کی تعیم کرتے ہیں بعض اوقات حدیث میں کوئی ابہام ہوتا ہے تو عنوان میں کسی لفظ کا اضافہ کر کے اس کی وضاحت کر دیتے ہیں اس قسم کے تراجم کو شارح کہا جاتا ہےمختصر یہ ہے اگر نماز میں تھوکنے کی ضرورت پیش آجائے تو موقع و محل کے مطابق ان تفصیلات پر عمل کیا جائے جو روایات سابقہ میں مذکورہیں اور ان میں ایک مجبور کن صورت مذکورہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔