قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ غَزْوَةِ خَيْبَرَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4196. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْلًا فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ لِعَامِرٍ يَا عَامِرُ أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ يَقُولُ اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَاءً لَكَ مَا أَبْقَيْنَا وَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَبَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ هَذَا السَّائِقُ قَالُوا عَامِرُ بْنُ الْأَكْوَعِ قَالَ يَرْحَمُهُ اللَّهُ قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ وَجَبَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى فَتَحَهَا عَلَيْهِمْ فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ مَسَاءَ الْيَوْمِ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا هَذِهِ النِّيرَانُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ قَالُوا عَلَى لَحْمٍ قَالَ عَلَى أَيِّ لَحْمٍ قَالُوا لَحْمِ حُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْرِيقُوهَا وَاكْسِرُوهَا فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْ نُهَرِيقُهَا وَنَغْسِلُهَا قَالَ أَوْ ذَاكَ فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ قَصِيرًا فَتَنَاوَلَ بِهِ سَاقَ يَهُودِيٍّ لِيَضْرِبَهُ وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ فَأَصَابَ عَيْنَ رُكْبَةِ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ قَالَ فَلَمَّا قَفَلُوا قَالَ سَلَمَةُ رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي قَالَ مَا لَكَ قُلْتُ لَهُ فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَبَ مَنْ قَالَهُ إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ قَلَّ عَرَبِيٌّ مَشَى بِهَا مِثْلَهُ .

مترجم:

4196.

حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلے تو ہم رات بھر چلتے رہے۔ ایک آدمی نے حضرت عامر ؓ سے کہا: اے عامر! تم ہمیں اپنے شعر کیوں نہیں سناتے ہو؟ حضرت عامر ؓ شاعر تھے، اپنی سواری سے اتر کر حدی خوانی کرتے ہوئے یہ شعر سنانے لگے:
گر نہ ہوتی تیری رحمت اے شاہ عالی صفات۔۔۔ تو نمازیں ہم نہ پڑھتے اور نہ دیتے ہم زکاۃ۔۔۔ تجھ پر صدقے جب تلک ہم زندہ رہیں؛ بخش دے ہم کو لڑائی میں عطا کر ثبات۔۔۔ اپنی رحمت ہم پہ نازل کر شہ والا صفات؛ جب وہ ناحق چیختے سنتے نہیں ہم ان کی بات۔۔۔ چیخ چلا کر انہوں نے ہم سے چاہی ہے نجات‘‘ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ’’یہ کون حدی خواں ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: حضرت عامر بن اکوع ؓ! آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔‘‘
یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اب تو حضرت عامر ؓ کے لیے شہادت یا جنت لازم ہو گئی۔ کاش! آپ ہمیں ان سے مزید فائدہ اٹھانے دیتے۔ پھر ہم خیبر آئے اور اہل خیبر کا محاصرہ کر لیا۔ اس دوران میں ہمیں سخت بھوک لگی۔ آخر اللہ تعالٰی نے ہمیں فتح عطا فرمائی۔ جس دن خیبر فتح ہوا اس رات لوگوں نے جگہ جگہ آگ روشن کی تو نبی ﷺ نے پوچھا: ’’یہ کیسی آگ ہے؟‘‘ صحابہ کرام ؓ نے کہا: لوگ گوشت پکا رہے ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’کس جانور کا گوشت ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: پالتو گدھوں کا گوشت ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس گوشت کو پھینک دو اور ہنڈیوں کو توڑ دو۔‘‘ ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم (ایسا نہ کریں کہ) گوشت کو پھینک کر ہنڈیوں کو دھو لیں؟ آپ نے فرمایا: ’’یوں ہی کر لو۔‘‘ پھر جب قوم صف بندی کر چکی تو حضرت عامر ؓ نے اپنی تلوار جو چھوٹی تھی ایک یہودی کی پنڈلی پر ماری تو اس کی نوک پلٹ کر حضرت امر ؓ کے گھٹنے پر لگی۔ حضرت عامر ؓ اس زخم سے فوت ہو گئے۔ راوی کا بیان ہے کہ جب سب لوگ واپس آئے تو سلمہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے (مغموم) دیکھ کر میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! لوگ کہتے ہیں کہ عامر کی نیکیاں بے کار گئیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جھوٹا ہے وہ شخص جو اس طرح کی باتیں کرتا ہے۔ حضرت عامر ؓ کو تو دوہرا اجر ملے گا۔۔ پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا۔۔ عامر نے تکلیف اور مشقت بھی اٹھائی اور اللہ کے راستے میں جہاد بھی کیا۔ شاید ہی کوئی ایسا عربی ہو جس نے ان جیسی مثال قائم کی ہو۔‘‘ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے حاتم نے بیان کیا: کوئی عرب مدینہ طیبہ میں عامر جیسا پیدا نہیں ہو۔