تشریح:
1۔ حضرت عامر ؓ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کے حقیقی چچا تھے۔ وہ رئیس خیبر مرحب کے مقابلے کے لیے نکلے تو ان کی تلوار خود ان کے ہاتھ سے ان کے گھٹنے پر لگی اور وہ اس زخم کی تاب نہ لا کر شہید ہو گئے حضرت اسید خضیر ؓ کے ساتھ اور لوگوں نے ان کے متعلق خود کشی کا شبہ ظاہر کیا اور کہا کہ ان کے عمل تو ضائع ہو گئے۔ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث:6891) ان باتوں کا اثر حضرت سلمہ بن اکوع ؓ پر ہوا انھوں نے پریشانی کے عالم میں اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے لوگوں کی اصلاح کے لیے حضرت عامر ؓ کی فضیلت کا اظہار ضروری خیال کیا۔
2۔ حضرت عامر ؓ نے جو اشعار پڑھے ہیں وہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے ہیں جو انھوں نے غزوہ خندق کے موقع پر پڑھے تھے لیکن اس حدیث میں ان اشعار کی نسبت حضرت عامر ؓ کی طرف کی گئی ہے یہ سرقہ نہیں بلکہ خیالات کی موافقت ہے۔ ممکن ہے کہ اشعار تو عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے ہوں لیکن حضرت عامر ؓ نے انھیں یاد کر لیا تھا اس لیے ان کی طرف منسوب کر دیے گے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں ممکن ہے کہ ان اشعار میں دونوں شعراء کا مضمون ملتا جلتا ہو کیونکہ دونوں کے اشعار میں کمی بیشی ہے۔ ایک کے اشعار کے کچھ ابیات ایسے ہیں جو دوسرے کے اشعار میں نہیں ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت عامر ؓ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے اشعار سے مددلی ہو۔ (فتح الباري:7/580)
3۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عامر ؓ نے جب اشعار پڑھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عامر! تیرا پروردگار تجھے بخش دے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجهاد،حدیث:4678۔(1807) ) رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص کو مخاطب کر کے یوں فرماتے تو وہ جنگ میں ضرور شہید ہو جاتا۔ حضرت عمر ؓ اس وقت اونٹ پر سوار تھے انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے دعائیہ کلمات سن کر عرض کی:اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! آپ نے ہمیں ان سے مزید فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا۔ (فتح الباري:582/7)
4۔ چونکہ اس حدیث میں غزوہ خیبر کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔