تشریح:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں فرماتے ہیں کہ تمام مساجد درحقیقت اللہ کی ملکیت ہیں کسی اور کی نہیں اس لیے کوئی شخص وہم کر سکتا ہے کسی انسان کی طرف ان کی نسبت کرنا صحیح نہیں۔ مصنف نے اس وہم کو دور کرنے کی غرض سے اس بات کو ثابت کیا ہےکہ مسجد کی نسبت کسی شخص یا قبیلے کی طرف جائز ہے اور ایسا کسی تعلق کی بنا پر ہو سکتا ہے مثلاً بنانے والے یا متولی یا قرب و جوار کے رہنے والے کی طرف اس کی نسبت کر دی جائے۔ جیسا کہ حدیث میں بنو زریق کی طرف نسبت کی گئی ہے۔ 2۔ امام ابن ابی شیبہ ؒ نے بیان کیا ہے۔ حضرت امام ابراہیم نخعی ؒ کسی مسجد کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا ناپسند کرتے تھے، اس لیے کہ مسجدیں صرف اللہ کے لیے ہیں، جبکہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ثابت کیا ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جمہور علماء بھی اس کی تائید کرتے ہیں اور ایسی مساجد میں جس نسبت کا بیان ہے، وہ تمیز کے لیے ہے، ملکیت بتانے کے لیے نہیں۔ (فتح الباري:667/1) 3۔ اس زمانے میں گھوڑوں کو جہاد کے لیے اس طرح تیار کیا جاتا تھا کہ پہلے انھیں خوب کھلا پلا کر موٹا کیا جاتا، پھر انھیں بھوکا رکھا جاتا اور گھروں میں ان پر جھول ڈال دیے جاتے تاکہ پسینہ آنے کے بعد ان کی چربی پگھل کر جز و بدن بن جائے ۔ یہ عمل چالیس دن کرنےسے گھوڑا تیز رو ہو جاتا اور اس کا سانس بھی بڑھ جاتا تھا، ان کی دوڑ کے لیے زیادہ فاصلہ رکھا گیا، جبکہ غیر تیار شدہ گھوڑوں کے مقابلے کے لیے فاصلہ کم رکھا گیا تھا۔ بنو زریق انصار مدینہ کے مشہور قبیلے خزورج کی ایک شاخ تھی۔ واضح رہے کہ دوڑ کا یہ مقابلہ جہادی مشقوں کا ایک حصہ تھا، اس کے برعکس موجودہ دور میں ریس کے، میدانوں میں جو دوڑ کرائی جاتی ہے جن کی ہار جیت کا سلسلہ جوئے بازی پر ہوتا ہے ایسی دوڑ میں شرکت کرنا مسلمان کے لیے جائز نہیں ۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگر مسائل کتاب الجهاد حدیث 2868 کے تحت بیان ہوں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔