قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ غَزْوَةِ خَيْبَرَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4202. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَقَى هُوَ وَالمُشْرِكُونَ فَاقْتَتَلُوا، فَلَمَّا مَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَسْكَرِهِ وَمَالَ الآخَرُونَ إِلَى عَسْكَرِهِمْ، وَفِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ لاَ يَدَعُ لَهُمْ شَاذَّةً وَلاَ فَاذَّةً إِلَّا اتَّبَعَهَا يَضْرِبُهَا بِسَيْفِهِ، فَقِيلَ: مَا أَجْزَأَ مِنَّا اليَوْمَ أَحَدٌ كَمَا أَجْزَأَ فُلاَنٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ»، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ القَوْمِ: أَنَا صَاحِبُهُ، قَالَ: فَخَرَجَ مَعَهُ كُلَّمَا وَقَفَ وَقَفَ مَعَهُ، وَإِذَا أَسْرَعَ أَسْرَعَ مَعَهُ، قَالَ: فَجُرِحَ الرَّجُلُ جُرْحًا شَدِيدًا، فَاسْتَعْجَلَ المَوْتَ، فَوَضَعَ سَيْفَهُ بِالأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَى سَيْفِهِ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ؟» قَالَ: الرَّجُلُ الَّذِي ذَكَرْتَ آنِفًا أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَأَعْظَمَ النَّاسُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: أَنَا لَكُمْ بِهِ، فَخَرَجْتُ فِي طَلَبِهِ، ثُمَّ جُرِحَ جُرْحًا شَدِيدًا، فَاسْتَعْجَلَ المَوْتَ، فَوَضَعَ نَصْلَ سَيْفِهِ فِي الأَرْضِ، وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: «إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الجَنَّةِ، فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ، فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ»

مترجم:

4202.

حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ خیبر پر حملہ کرنے کے لیے نکلے یا کہا: جب رسول اللہ ﷺ خیبر کی طرف متوجہ ہوئے تو لوگوں نے ایک وادی پر چڑھ کر نعرہ تکبیر بلند کیا اور کہنے لگے: ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا إله الا اللہ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنے آپ پر کچھ نرمی کرو۔ تم کسی بہرے یا غیر حاضر کو نہیں پکار رہے بلکہ تم ایک خوب سننے والے اور انتہائی قریب اللہ کو پکار رہے ہو۔ وہ ہر لمحہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی سواری کے پیچھے تھا۔ آپ نے مجھے یہ کہتے ہوئے سنا: لا حول ولا قوة الا بالله تو مجھے فرمایا: ’’اے عبداللہ بن قیس!‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا میں تجھے ایک کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں آپ ضرور بتائیں، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! آپ نے فرمایا: ’’وہ لا حول ولا قوة الا بالله ہے۔‘‘