تشریح:
1۔ اس شخص کا نام قزمان ظفری تھا۔ انصار کے ایک چھوٹے قبیلے بنوظفر کی طرف منسوب ہے۔ اس کی کنیت ابوغیداق تھی۔ (شَاذَّه) اس بکری کو کہتے ہیں جو ریوڑ سے الگ ہوکر چرے اور (فَاذَّه) وہ بکری جو ابتدا ہی سے دوسری بکریوں سے الگ تھلگ رہے۔ (فتح الباري:589/7)
2۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص مشرکین کے کسی آدمی کو نہیں چھوڑتا تھا، جسے دیکھتا اسے اپنی تلوار کی نوک پر رکھ لیتا تھا۔ وہ شخص مناق تھا اور اس نے اپنے نفاق کو چھپارکھاتھا، اس لیے یہ حدیث ا پنے ظاہری مفہوم میں واضح ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے تلوار سے کام تمام کیا تھا جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے تیر سے خود کشی کی تھی، ان روایات میں کوئی منافات اور تضاد نہیں ہے کیونکہ پہلے اس نے تیر سے خود کو زخمی کیا، لیکن ا س سے مقصد حاصل نہ ہوتوتلوار سے اپنا کام تمام کردیا۔ واللہ اعلم۔