قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ القِسْمَةِ، وَتَعْلِيقِ القِنْوِ فِي المَسْجِدِ )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «القِنْوُ العِذْقُ وَالِاثْنَانِ قِنْوَانِ وَالجَمَاعَةُ أَيْضًا قِنْوَانٌ مِثْلَ صِنْوٍ وَصِنْوَانٍ»

421.  وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ طَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَالٍ مِنَ البَحْرَيْنِ، فَقَالَ: «انْثُرُوهُ فِي المَسْجِدِ» وَكَانَ أَكْثَرَ مَالٍ أُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلاَةِ وَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهِ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلاَةَ جَاءَ فَجَلَسَ إِلَيْهِ، فَمَا كَانَ يَرَى أَحَدًا إِلَّا أَعْطَاهُ، إِذْ جَاءَهُ العَبَّاسُ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَعْطِنِي، فَإِنِّي فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذْ» فَحَثَا فِي ثَوْبِهِ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ فَلَمْ يَسْتَطِعْ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اؤْمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ إِلَيَّ، قَالَ: «لاَ» قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، قَالَ: «لاَ» فَنَثَرَ مِنْهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اؤْمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ عَلَيَّ، قَالَ: «لاَ» قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، قَالَ: «لاَ» فَنَثَرَ مِنْهُ، ثُمَّ احْتَمَلَهُ، فَأَلْقَاهُ عَلَى كَاهِلِهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ، فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ حَتَّى خَفِيَ عَلَيْنَا - عَجَبًا مِنْ حِرْصِهِ - فَمَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَمَّ مِنْهَا دِرْهَمٌ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

امام بخاری  کہتے ہیں کہ «قنو» کے معنی (عربی زبان میں) «عذق» (خوشہ کھجور) کے ہیں۔ دو کے لیے «قنوان» آتا ہے اور جمع کے لیے بھی یہی لفظ آتا ہے جیسے «صنو» اور «صنوان» ۔

421.

حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے پاس بحرین سے کچھ مال لایا گیا تو آپنے فرمایا:’’اسے مسجد میں ڈھیر کر دو۔‘‘ یہ مال اب تک آپ کے پاس لائے گئے مالوں سے بہت زیادہ مقدار میں تھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے اس کی طرف التفات بھی نہیں کیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آ کر اس کے پاس بیٹھ گئے، پھر جسے دیکھا اسے دیتے چلے گئے۔ اتنے میں حضرت عباس ؓ  آپ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے بھی دیجیے، کیونکہ میں نے (بدر کی لڑائی میں) اپنا اور عقیل کا فدیہ دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: ’’اٹھا لو۔‘‘ انھوں نے اپنے کپڑے میں دونوں ہاتھ سے اتنا مال بھر لیا کہ اٹھا نہ سکے، کہنے لگے: اللہ کے رسول! ان میں سے کسی کو کہہ دیجیے کہ یہ مال اٹھانے میں میری مدد کرے۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ انھوں نے کہا: پھر آپ ہی اسے اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیں۔ آپ نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ اس پر حضرت عباس ؓ نے اس میں سے کچھ کم کیا اور پھر اٹھانے لگے لیکن اب بھی نہ اٹھا سکے، تو عرض کیا: اللہ کے رسول! ان میں سے کسی کو کہہ دیں کہ مجھے اٹھوا دیں۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ انھوں نے کہا: پھر آپ خود اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیں۔ آپ نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ تب حضرت عباس ؓ نے اس میں کچھ مزید کمی کی۔ بعد میں اسے اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ لیا اور چل دیے۔ رسول اللہ ﷺ ان کی حرص اور طمع پر تعجب کر کے انہیں دیکھتے ہی رہے حتی کہ وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ وہاں سے اس وقت اٹھے جب ایک درہم بھی باقی نہ رہا۔