تشریح:
1۔ مقدمات کے فیصلے کے لیے اگر دارالقضاء علیحدہ تعمیر شدہ نہیں ہے تو مسجد میں فیصلے کرنے کے لیے بیٹھنا مسلمانوں کا قدیم عمل چلا آرہا ہے، البتہ امام شافعی ؒ کے نزدیک اگر قاضی کو اتفاقاً اس کی نوبت آجائے توچنداں حرج نہیں، تاہم اسے معمول بنا لینا ان کے ہاں ناپسندیدہ عمل ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ فریقین میں حائضہ عورت بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے ان کے مقدمات نمٹانے کے لیے مسجد میں بیٹھنا اس کے تقدس اور احترام کے منافی ہے، لیکن امام بخاری ؒ اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے، بلکہ اس عنوان سے اس کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ مذکورہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعان کردیا اور لعان بیوی اور خاوند کے درمیان ہوتا ہے، اس لیے مسجد میں لعان اور مرد و عورت کے درمیان فیصلے کرنا دونوں کا حکم معلوم ہو گیا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس مقام پر مختصر روایت ذکر کی ہے۔ کتاب الطلاق کتاب التفسیر اور دیگر مقامات پر یہ روایت متعدد طرق سے تفصیل کے ساتھ آئے گی اور امام بخاری ؒ اس سے مختلف مسائل پر استدلال کریں گے۔ لعان یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو ملوث دیکھتا ہے یا اس قسم کا یقین اسے دوسرے ذرائع سے ہو جاتا ہے، لیکن کوئی معقول شہادت اس کے پاس نہیں تو شریعت نے خاص طور پر شوہر اور بیوی کے تعلقات کے پیش نظر اس بات کی اجازت دی ہے کہ دونوں قاضی کے سامنے اپنا دعوی پیش کریں اور ایک دوسرے کے خلاف چار چار قسمیں اٹھائیں اور پانچویں مرتبہ جھوٹا ہونے کی صورت میں اپنے آپ پر لعنت بھیجیں تو پھر ان دونوں کے درمیان تفریق کرادی جائے گی۔ اس کی تفصیل متعلقہ ابواب میں آئے گی۔ زیر بحث مسئلے کے متعلق بھی تفصیلی گفتگو کتاب الأحکام حدیث 7165 میں آئے گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔ واضح رہے کہ مسجد میں جب بیوی خاوند کے درمیان لعان ہوا تو اس وقت حضرت سہل بن سعد ؓ کی عمر پندرہ سال تھی اور وہ اس بات کے عینی شاہد ہیں۔ (صحیح البخاري،الأحکام، حدیث:7165)