باب: جب تھوک کا غلبہ ہو تو نمازی اپنے کپڑے کے کنارے میں تھوک لے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: If the spit or sputum comes out suddenly then one should spit in the corner of one's garnet)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
423.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے قبلے کی سمت ناک کی رطوبت لگی ہوئی دیکھی تو آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے صاف کر دیا اور اس کی ناگواری آپ کے چہرے سے ظاہر ہوئی یا اس وجہ سے آپ کی ناگواری اور اس کی گرانی معلوم ہوئی۔ آپ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے یا (فرمایا کہ) اس کا پروردگار اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے، لہذا وہ اپنے قبلے کی جانب نہ تھوکے بلکہ وہ اپنی بائیں جانب یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوکے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے اپنی چادر کا کنارہ لیا اور اس میں تھوکا۔ پھر آپ نے اس کے ایک حصے کو دوسرے حصے پرمل دیا اور فرمایا:’’اس طرح بھی کر سکتا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ دوران نماز میں اگر تھوکنے کی ضرورت پیش آجائے تو دو صورتیں پہلے بیان ہو چکی ہیں۔ ایک بائیں جانب اور دوسری بائیں پاؤں کے نیچے۔ اس کے آداب و شرائط بھی بیان ہو چکے ہیں، ایک تیسری صورت کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے، کہ اپنے کپڑے میں تھوک کر اسے مل دینا چاہیے مگر اس تیسری صورت کو امام بخاری ؒ نے مقید کیا ہے کہ کپڑے میں لے کر رگڑنے کی صورت اس وقت جب تھوک نمازی پر غالب آجائے اور نمازی اس کے غلبے کے وقت دائیں بائیں جانب کا امتیاز نہ کر سکے، ایسی مجبوری میں اسے کپڑے میں لے کر مل دینا چاہیے، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں جس قید کا ذکر کیا ہے، وہ حدیث میں موجودنہیں ۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں :’’عنوان کے الفاظ سے امام بخاری ؒ نے ان روایات کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن میں تھوک کے غلبے کی قید موجود ہے جیسا کہ امام مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے کہ ایسے حالات میں نمازی اپنی بائیں جانب یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوک لے لیکن اگر تھوک عجلت پر مجبور کرے تو اسے اپنے کپڑے میں اس طرح لے لے۔ پھر اس کے ایک کنارے کو دوسرے پررگڑدے اسی طرح ابو داؤد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نمازی اپنے کپڑے میں تھوکے پھر ایک کنارے کو دوسرے سے رگڑ دے۔ یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں لیکن امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں ان کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ جن احادیث میں یہ تفصیل نہیں انھیں مفصل احادیث پر محمول کیا جائے۔‘‘(فتح الباري:665/1)واللہ أعلم۔ 2۔ امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے عناد ین سے بیشتر احادیث کے عموم کی تخصیص اطلاق کی تقیید یا خصوص کی تعیم کرتے ہیں بعض اوقات حدیث میں کوئی ابہام ہوتا ہے تو عنوان میں کسی لفظ کا اضافہ کر کے اس کی وضاحت کر دیتے ہیں اس قسم کے تراجم کو شارح کہا جاتا ہےمختصر یہ ہے اگر نماز میں تھوکنے کی ضرورت پیش آجائے تو موقع و محل کے مطابق ان تفصیلات پر عمل کیا جائے جو روایات سابقہ میں مذکورہیں اور ان میں ایک مجبور کن صورت مذکورہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
414
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
417
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
417
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
417
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے قبلے کی سمت ناک کی رطوبت لگی ہوئی دیکھی تو آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے صاف کر دیا اور اس کی ناگواری آپ کے چہرے سے ظاہر ہوئی یا اس وجہ سے آپ کی ناگواری اور اس کی گرانی معلوم ہوئی۔ آپ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے یا (فرمایا کہ) اس کا پروردگار اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے، لہذا وہ اپنے قبلے کی جانب نہ تھوکے بلکہ وہ اپنی بائیں جانب یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوکے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے اپنی چادر کا کنارہ لیا اور اس میں تھوکا۔ پھر آپ نے اس کے ایک حصے کو دوسرے حصے پرمل دیا اور فرمایا:’’اس طرح بھی کر سکتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ دوران نماز میں اگر تھوکنے کی ضرورت پیش آجائے تو دو صورتیں پہلے بیان ہو چکی ہیں۔ ایک بائیں جانب اور دوسری بائیں پاؤں کے نیچے۔ اس کے آداب و شرائط بھی بیان ہو چکے ہیں، ایک تیسری صورت کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے، کہ اپنے کپڑے میں تھوک کر اسے مل دینا چاہیے مگر اس تیسری صورت کو امام بخاری ؒ نے مقید کیا ہے کہ کپڑے میں لے کر رگڑنے کی صورت اس وقت جب تھوک نمازی پر غالب آجائے اور نمازی اس کے غلبے کے وقت دائیں بائیں جانب کا امتیاز نہ کر سکے، ایسی مجبوری میں اسے کپڑے میں لے کر مل دینا چاہیے، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں جس قید کا ذکر کیا ہے، وہ حدیث میں موجودنہیں ۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں :’’عنوان کے الفاظ سے امام بخاری ؒ نے ان روایات کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن میں تھوک کے غلبے کی قید موجود ہے جیسا کہ امام مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے کہ ایسے حالات میں نمازی اپنی بائیں جانب یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوک لے لیکن اگر تھوک عجلت پر مجبور کرے تو اسے اپنے کپڑے میں اس طرح لے لے۔ پھر اس کے ایک کنارے کو دوسرے پررگڑدے اسی طرح ابو داؤد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نمازی اپنے کپڑے میں تھوکے پھر ایک کنارے کو دوسرے سے رگڑ دے۔ یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں لیکن امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں ان کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ جن احادیث میں یہ تفصیل نہیں انھیں مفصل احادیث پر محمول کیا جائے۔‘‘(فتح الباري:665/1)واللہ أعلم۔ 2۔ امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے عناد ین سے بیشتر احادیث کے عموم کی تخصیص اطلاق کی تقیید یا خصوص کی تعیم کرتے ہیں بعض اوقات حدیث میں کوئی ابہام ہوتا ہے تو عنوان میں کسی لفظ کا اضافہ کر کے اس کی وضاحت کر دیتے ہیں اس قسم کے تراجم کو شارح کہا جاتا ہےمختصر یہ ہے اگر نماز میں تھوکنے کی ضرورت پیش آجائے تو موقع و محل کے مطابق ان تفصیلات پر عمل کیا جائے جو روایات سابقہ میں مذکورہیں اور ان میں ایک مجبور کن صورت مذکورہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ نے، کہا ہم سے حمیدنے انس بن مالک ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے قبلہ کی طرف ( دیوار پر ) بلغم دیکھا تو آپ نے خود اسے کھرچ ڈالا اور آپ کی ناخوشی کو محسوس کیا گیا یا ( راوی نے اس طرح بیان کیا کہ ) اس کی وجہ سے آپ کی شدید ناگواری کو محسوس کیا گیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، یا یہ کہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے قبلہ کی طرف نہ تھوکا کرو، البتہ بائیں طرف یا قدم کے نیچے تھوک لیا کرو۔ پھر آپ نے اپنی چادر کا ایک کونا ( کنارہ ) لیا، اس میں تھوکا اور چادر کی ایک تہہ کو دوسری تہہ پر پھیر لیا اور فرمایا، یا اس طرح کر لیا کرے۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے آنے والے حالات کی بناپر بوقت ضرورت اپنے عمل سے ہر طرح کی آسانی ثابت فرمائی ہے۔ چونکہ آج کل مساجد پختہ ہوتی ہیں، فرش بھی پختہ اوران پر مختلف قسم کی قیمتی چیزیں ( قالین وغیرہ ) بچھی ہوتی ہیں، لہٰذآج آپ کی یہی سنت ملحوظ رکھنی ہوگی کہ بوقت ضرورت رومال میں تھوک لیا جائے اوراس مقصد کے لیے خاص رومال رکھے جائیں۔ قربان جایے! آپ ﷺ نے اپنے عمل سے ہر طرح کی سہولت ظاہر فرمادی۔ کاش! مسلمان سمجھیں اوراسوئہ حسنہ پر عمل کواپنا مقصد حیات بنالیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) saw expectoration (on the wall of the mosque) in the direction of the Qibla and scraped it off with his hand. It seemed that he disliked it and the sign of disgust was apparent from his face. He said, "If anyone of you stands for the prayer, he is speaking in private to his Lord, (or) his Lord is between him and his Qibla, therefore he should not spit towards his Qibla, but he could spit either on his left or under his foot." Then he took the corner of his sheet and spat in it, folded it and said, "Or do like this."