قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ غَزْوَةِ خَيْبَرَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4230. حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ العَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِاليَمَنِ، فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ أَنَا وَأَخَوَانِ لِي أَنَا أَصْغَرُهُمْ، أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ، وَالآخَرُ أَبُو رُهْمٍ، إِمَّا قَالَ: بِضْعٌ، وَإِمَّا قَالَ: فِي ثَلاَثَةٍ وَخَمْسِينَ، أَوِ اثْنَيْنِ وَخَمْسِينَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي، فَرَكِبْنَا سَفِينَةً، فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالحَبَشَةِ، فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِيعًا، فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ، وَكَانَ أُنَاسٌ مِنَ النَّاسِ يَقُولُونَ لَنَا، يَعْنِي لِأَهْلِ السَّفِينَةِ: سَبَقْنَاكُمْ بِالهِجْرَةِ، وَدَخَلَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، وَهِيَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا، عَلَى حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَةً، وَقَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ، فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى حَفْصَةَ، وَأَسْمَاءُ عِنْدَهَا، فَقَالَ عُمَرُ حِينَ رَأَى أَسْمَاءَ: مَنْ هَذِهِ؟ قَالَتْ: أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، قَالَ عُمَرُ: الحَبَشِيَّةُ هَذِهِ البَحْرِيَّةُ هَذِهِ؟ قَالَتْ أَسْمَاءُ: نَعَمْ، قَالَ: سَبَقْنَاكُمْ بِالهِجْرَةِ، فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكُمْ، فَغَضِبَتْ وَقَالَتْ: كَلَّا وَاللَّهِ، كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطْعِمُ جَائِعَكُمْ، وَيَعِظُ جَاهِلَكُمْ، وَكُنَّا فِي دَارِ - أَوْ فِي أَرْضِ - البُعَدَاءِ البُغَضَاءِ بِالحَبَشَةِ، وَذَلِكَ فِي اللَّهِ وَفِي رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَايْمُ اللَّهِ لاَ أَطْعَمُ طَعَامًا وَلاَ أَشْرَبُ شَرَابًا، حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَنُخَافُ، وَسَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَسْأَلُهُ، وَاللَّهِ لاَ أَكْذِبُ وَلاَ أَزِيغُ، وَلاَ أَزِيدُ عَلَيْهِ،

مترجم:

4230.

حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم لوگ یمن میں تھے جب ہمیں نبی ﷺ کی (مکہ سے) روانگی کی اطلاع ملی۔ ہم بھی ہجرت کر کے آپ کی طرف چل پڑے۔ ایک میں اور دو میرے بھائی۔ میں سب سے چھوٹا تھا۔ بھائیوں میں سے ایک کا نام ابو بردہ اور دوسرے کا نام ابو رہم تھا۔ انہوں نے کہا: ہمارے ساتھ ہماری قوم کے پچاس سے کچھ زیادہ یا انہوں نے کہا: تریپن (53) یا باون (52) افراد اور بھی تھے۔ ہم سب کشتی میں سوار ہوئے تو ہماری کشتی نے ہمیں نجاشی کی سرزمین حبشہ میں جا اتارا۔ وہاں ہماری ملاقات حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ سے ہوئی اور ہم نے ان کے پاس ہی قیام کیا۔ پھر ہم سب اکٹھے روانہ ہوئے تو نبی ﷺ سے اس وقت ملاقات ہوئی جب آپ خیبر فتح کر چکے تھے۔ دوسرے لوگ ہم اہل سفینہ سے کہنے لگے کہ ہم ہجرت کے اعتبار تم تم پر سبقت رکھتے ہیں۔ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ بھی ہمارے ساتھ آئی تھیں۔ وہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت حفصہ‬ ؓ ک‬ے پاس ملاقات کے لیے گئیں جبکہ اسماء ؓ نے بھی نجاشی کی طرف جماعت مہاجرین کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ حضرت عمر ؓ حضرت حفصہ‬ ؓ ک‬ے پاس آئے تو اس وقت حضرت اسماء بنت عمیس ؓ بھی ان کے ہاں موجود تھیں۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت اسماء ؓا کو دیکھ کر پوچھا: یہ کون ہے؟ حضرت حفصہ‬ ؓ ن‬ے کہا: یہ حضرت اسماء بنت عمیس‬ ؓ ہ‬ے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: وہی حبشہ سے ہجرت کر کے آنے والی؟ سمندری راستے سے آنے والی؟حضرت اسماء ؓ نے کہا: ہاں، وہی ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے، اس بنا پر ہم رسول اللہ ﷺ پر تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ یہ بات سن کر حضرت اسماء ؓ غصے میں آ گئیں اور کہنے لگیں: اللہ کی قسم! ہرگز نہیں، تم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، تم میں سے اگر کوئی بھوکا ہوتا تو آپ اسے کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہلوں کو نصیحت کرتے تھے۔ لیکن ہم ایسی جگہ میں یا سرزمین حبشہ کے ایسے ایسے علاقے میں رہتے تھے جو نہ صرف دور تھا بلکہ دین اسلام سے وہاں نفرت تھی۔ یہ سب کچھ ہم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خاطر برداشت کیا تھا۔ اللہ کی قسم! میں اس وقت تک نہ تو کھانا کھاؤں گی اور نہ کچھ پیوں گی جب تک میں رسول اللہ ﷺ سے ان باتوں کا ذکر نہ کر لوں جو آپ نے کہی ہیں۔ وہاں ہمیں ایذا دی جاتی تھی اور ہم خوف و ہراس میں مبتلا رہتے تھے۔ میں یہ سب کچھ نبی ﷺ سے ضرور بیان کروں گی اور آپ سے دریافت کروں گی۔ اللہ کی قسم! میں نہ جھوٹ بولوں گی اور نہ غلط کہوں گی اور نہ اپنی طرف سے کوئی بات بڑھاؤں گی۔