تشریح:
ابان بن سعید ؓ نے مکہ مکرمہ میں حضرت عثمان ؓ کو اپنے ہاں پناہ دی تھی جب وہ (حضرت عثمان ؓ) صلح حدیبیہ کے وقت مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺ کے نمائندے بن کر تشریف لائےتھے۔ ابان اس وقت کافر تھے اور صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے ہیں۔ سعید بن عاص بیان کرتے ہیں کہ بدر میں میرا والد قتل ہوگیا تو میرے چچا ابان نے میری پرورش کی اور یہ رسول اللہ ﷺ کا سخت ترین دشمن تھا اور آپ کو گالیاں دیتا تھا۔ میرا چچا شام کے علاقے میں گیا، واپس آیا توآپ ﷺ کو گالیاں دینے سے رک گیا۔ اس کا سبب دریافت کیا گیا تو اس نے کہا کہ وہ شام میں ایک راہب سے ملا تھا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کی صفات سے مجھے آگاہ کیا، اس وقت سے ان کی صداقت ان کے دل میں بیٹھ گئی، چنانچہ تھوڑی یر بعد وہ مدینہ طیبہ آکر مسلمان ہوگئے۔ انھوں نے غزوہ اُحد میں نعمان بن قوقل کو شہید کیا تھا۔ اس حدیث میں حضرت ابان ؓ کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ اس ن ابن قوقل کو قتل کیا جبکہ وہ اس وقت کافر تھا اور حضرت نعمان بن قوقل مسلمان تھے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں میرے ہاتھوں مقام شہادت عطا فرمایا اور اگرنعمان ؓ اس وقت مجھے قتل کردیتے تو میں دونوں جہانوں میں ذلیل ورسوا ہوجاتا اور ہمیشہ جہنم کا ایندھن بن جاتا۔ دراصل حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابان ؓ دونوں نے ایک دوسرے پر اعتراض کیا اور رسول اللہ ﷺ سے کہا:اسے مال غنیمت سے حصہ نہ دیا جائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا موقف تھا کہ یہ ابن قوقل کا قاتل ہے، اس بنا پر اسے قطعاً مال غنیمت سے کوئی حصہ نہ دیا جائے جبکہ ابان ؓ کہتے تھے کہ ضان پہاڑی سے اتر کر ہماری تقسیم میں خلل انداز ہونے کی تمھیں کیاضرورت ہے۔ بہرحاہل رسول اللہ ﷺ نے مجاہدین سے مشورے کے بعد حضرت ابوہریرہ ؓ کو اموال خیبر سے حصہ دیا لیکن ابان اوراس کے ساتھیوں کو کچھ نہ دیا۔(فتح الباري:615/7)