تشریح:
1۔ یہاں مسجد میں مراد یہ ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مخصوص کر لی جائے۔ اس پر عام مساجد کے احکام نافذ نہیں ہوں گے، کیونکہ عام مساجد کسی کی ملک نہیں ہوتیں۔ ان کی خریدوفروخت نہیں کی جا سکتی، ان میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔ بحالت جنابت و حیض ان میں آمدورفت جائز نہیں، جبکہ گھر کی مسجد صاحب خانہ ملکیت ہوتی ہے۔ اس کی خریدو فرخت جائز ہے۔ اس کا میراث میں تقسیم کیا جا نا بھی جائز ہے۔ جنابت اور حیض کی حالت میں وہاں آمدو رفت رکھنا بھی جائز ہے۔ اگر گھر کی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو صرف جماعت کا ثواب حاصل ہو گا۔ مسجد کی جماعت کا ثواب نہیں ملے گا۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ معذور کے لیے اس طرح کی گھریلو مساجد میں فرائض کی ادائیگی درست ہے۔ اگر نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے گھر میں کوئی جگہ مقرر کر لی جائے جہاں معذوری کی صورت میں نماز باجماعت کا اہتمام ہوتو جماعت کا ثواب مل جائے گا اور اس پر مسجد شرعی سے غیر حاضر ہونے کا الزام عائد نہیں ہو گا۔ واضح رہے کہ گھروں میں نماز باجماعت کا ثبوت ظالم حکمرانوں کے زمانے میں اور دوسرے اعذار کے وقت ہوا ہے۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے، مثلاً: نابینے کی امامت کا جائز ہونا، کیونکہ حضرت عتبان ؓ نابینا ہونے کے باوجود اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔ اپنی بیماری کو بیان کرنا اللہ تعالیٰ کے شکوہ و شکایت میں داخل نہیں۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجد میں بھی نماز با جماعت کا اہتمام تھا۔ معذوروں کے لیے بارش اور سخت تاریکی میں جماعت کی پابندی ضروری نہیں۔ ضرورت کے وقت گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی بھی جگہ مقرر کی جاسکتی ہے۔ ملاقات کے لیے آنے والے بڑے آدمی کی امامت کا جائز ہونا بشرطیکہ صاحب خانہ اسے اجازت دے۔ کسی نیک آدمی کو گھر میں خیروبرکت کے لیے دعوت دی جائے تو ایساکرنا جائز ہے۔ بڑے لوگوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹے لوگوں کی دعوت قبول کریں اور اس میں حاضر ہوں۔ وعدہ پورا کرنا چاہیے اور اس کے لیے"إن شاء اللہ" کہنا چاہیے۔ اگرمیزبان پر اعتماد ہو تو دعوتی حضرات کے علاوہ دوسرے کو ساتھ لے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اہل خانہ سے اجازت لینا شریعت کا اہم تقاضا ہے۔ اہل محلہ کا کسی عالم یا امام کے پاس حصول برکت کے لیے جمع ہونا بھی جائز ہے۔ امام کے سامنے اس شخص کا تذکرہ کرنا جس سے دن اسلام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ ایمان میں صرف زبانی اقرار کافی نہیں جب تک دل میں یقین اور ظاہر میں عمل صالح نہ ہو۔ توحید پر مرنے والا ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہے گا۔ موسم برسات میں (جبکہ آمد و رفت میں مشقت ہو ) نماز گھروں میں پڈھنا جائز ہے۔ نوافل با جماعت ادا ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ تداعی (ایک دوسرے کو اس کے لیے دعوت دینا) نہ ہو۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو د س زیادہ مقامات پر بیان کیا ہے اور اس سے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے۔ جیسا کہ تفصیل بالا سے واضح ہے۔ (فتح الباري:677/1) 3۔ چونکہ حضرت محمود بن ربیع ؓ ایک کم سن صحابی ہیں، نیز اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نجات کے لیے صرف ایمان ہی کافی ہے، اعمال کی ضرورت نہیں، اس لیے ابن شہاب نے اطمینان قلب کے لیے حضرت حصین بن محمد انصاری سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی، چنانچہ جب ان سے پوچھا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی۔ جیسے امام بخاری ؒ نے آخر میں بیان کیا ہے۔ 4۔ ممکن ہے کہ امام بخاری نے اس عنوان سے حدیث عائشہ ؓ کی طرف اشارہ فرمایا ہو جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھروں میں مساجد بنانے اور انھیں صاف ستھرا اور معطر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:455) نیز حضرت سمرہ بن جندب ؓ نے اپنے بیٹوں کو خط لکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں گھروں میں مساجد بنانے، ان کی اصلاح کرنے اور انھیں پاکیزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:456)