قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ المَسَاجِدِ فِي البُيُوتِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَصَلَّى البَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ: «فِي مَسْجِدِهِ فِي دَارِهِ جَمَاعَةً»

425. حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيُّ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الأَنْصَارِ أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي فَإِذَا كَانَتِ الأَمْطَارُ سَالَ الوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ بِهِمْ، وَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَّكَ تَأْتِينِي فَتُصَلِّيَ فِي بَيْتِي، فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ» قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ البَيْتَ، ثُمَّ قَالَ: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ» قَالَ: فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ البَيْتِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ، فَقُمْنَا فَصَفَّنَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، قَالَ وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرَةٍ صَنَعْنَاهَا لَهُ، قَالَ: فَآبَ فِي البَيْتِ، رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ ذَوُو عَدَدٍ، فَاجْتَمَعُوا، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخَيْشِنِ أَوِ ابْنُ الدُّخْشُنِ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذَلِكَ مُنَافِقٌ لاَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَقُلْ ذَلِكَ، أَلاَ تَرَاهُ قَدْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ إِلَى المُنَافِقِينَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ الحُصَيْنَ بْنَ مُحَمَّدٍ الأَنْصَارِيَّ - وَهُوَ أَحَدُ بَنِي سَالِمٍ - وَهُوَ مِنْ سَرَاتِهِمْ، عَنْ حَدِيثِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيِّ: «فَصَدَّقَهُ بِذَلِكَ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور براء بن عازب ؓ نے اپنے گھر کی مسجد میں جماعت سے نماز پڑھی۔اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالا ہے۔

425.

حضرت محمود بن ربیع انصاری سے روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ رسول اللہ ﷺ کے ان انصاری صحابہ میں سے ہیں جو شریک بدر تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بینائی جاتی رہی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں، لیکن بارش کی وجہ سے جب وہ نالہ بہنے لگتا ہے جو میرے اور ان کے درمیان ہے تو میں نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں نہیں آ سکتا، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو جائے نماز قرار دے لوں۔ راوی کہتا ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میں إن شاءاللہ جلد ہی ایسا کروں گا۔‘‘ حضرت عتبان ؓ  کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ دوسرے روز دن چڑھے میرے گھر تشریف لائے اور رسول اللہ ﷺ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میرے اجازت دینے پر آپ گھر میں داخل ہوئے اور بیٹھنے سے پہلے فرمایا: "تم اپنے گھر میں کس جگہ چاہتے ہو کہ میں وہاں نماز پڑھوں؟" حضرت عتبان ؓ کہتے ہیں:میں نے گھر کے ایک کونے کی نشان دہی کی تو آپ نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی۔ ہم نے صف بستہ ہو کر آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے تو آپنے دو رکعت نماز پڑھی اور اس کے بعد سلام پھیر دیا۔پھر ہم کچھ حلیم تیار کر کے آپ کو روک لیا۔ اس کے بعد اہل محلہ میں سے کئی آدمی گھر میں آ کر جمع ہو گئے۔ ان میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ مالک بن دخشين یا ابن دخشن کہاں ہے؟کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے۔ اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا مت کہو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے لا إله إلا الله کہتا ہے۔‘‘ وہ شخص بولا: اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں، بظاہر تو ہم اس کا رخ اور اس کی خیرخواہی منافقین کے حق میں دیکھتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر آگ کو حرام کر دیا ہے جولا إله إلا الله  کہہ دے بشرطیکہ اس سے اللہ کی رضامندی ہی مقصود ہو۔ حضرت امام زہری ؒ  کہتے ہیں: پھر میں نے حصین بن محمد انصاری سے، جو قبیلہ بنو سالم کے ایک فرد اور ان کے سربرآوردہ لوگوں میں سے تھے، محمود بن ربیع ؓ  کی اس روایت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی۔