تشریح:
1۔جس لشکر کا حضرت اسامہ ؓ کو امیر مقرر کیا گیا تھا اسے جیش اسامہ کہا جاتا ہے۔ حضرت اسامہ ؓ کو امیر بنانے میں یہ مصلحت تھی کہ ان کے والد گرامی حضرت زید بن حارثہ ؓ غزوہ موتہ میں کافروں کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے حضرت اسامہ ؓ کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے علاوہ یہ بھی خیال تھا کہ وہ اپنے والد گرامی کی شہادت کو یاد کر کے بے جگری سے لڑیں گے۔ 2۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ ؓ کو کئی لڑائیوں میں سردار مقرر کیا تھا حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کا بیان ہے کہ ہم نے سات لڑائیاں ان کی زیر امارت لڑی ہیں انھیں پہلے نجد کی طرف پھر بنو سلیم کی طرف پھرقریش کے تجارتی قافلوں کی طرف پھر بنو ثعلبہ کی طرف پھر حسمی کی طرف پھر وادی القری کی طرف اور آخر میں بنو فزارہ کی طرف امیر بنا کر روانہ کیا گیا تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کی مراد یہ آخری غزوہ ہے۔ اس میں بڑے بڑے مہاجر اور انصار شریک تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابو عبیدہ ؓ وغیرہ صحابہ ان کی زیر کمان تھے۔ 3۔رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ تھاکہ زمانہ جاہلیت کے دستور کو مٹا کر جس میں قابلیت ہو اس کو امیر بنایا جائے۔(فتح الباري:624/7) کسی فارسی شاعر نے خوب کہا ہے۔ بزرگی بعقل است نہ بہ سال۔۔۔تونگری بدل است نہ بمال