قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ عُمْرَةِ القَضَاءِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: ذَكَرَهُ أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّﷺ

4251. حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ حَتَّى قَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا كَتَبُوا الْكِتَابَ كَتَبُوا هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ قَالُوا لَا نُقِرُّ لَكَ بِهَذَا لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا مَنَعْنَاكَ شَيْئًا وَلَكِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ امْحُ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ عَلِيٌّ لَا وَاللَّهِ لَا أَمْحُوكَ أَبَدًا فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِتَابَ وَلَيْسَ يُحْسِنُ يَكْتُبُ فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَا يُدْخِلُ مَكَّةَ السِّلَاحَ إِلَّا السَّيْفَ فِي الْقِرَابِ وَأَنْ لَا يَخْرُجَ مِنْ أَهْلِهَا بِأَحَدٍ إِنْ أَرَادَ أَنْ يَتْبَعَهُ وَأَنْ لَا يَمْنَعَ مِنْ أَصْحَابِهِ أَحَدًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَى الْأَجَلُ أَتَوْا عَلِيًّا فَقَالُوا قُلْ لِصَاحِبِكَ اخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَى الْأَجَلُ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبِعَتْهُ ابْنَةُ حَمْزَةَ تُنَادِي يَا عَمِّ يَا عَمِّ فَتَنَاوَلَهَا عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِيَدِهَا وَقَالَ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ حَمَلَتْهَا فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ وَزَيْدٌ وَجَعْفَرٌ قَالَ عَلِيٌّ أَنَا أَخَذْتُهَا وَهِيَ بِنْتُ عَمِّي وَقَالَ جَعْفَرٌ ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي وَقَالَ زَيْدٌ ابْنَةُ أَخِي فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا وَقَالَ الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ وَقَالَ لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ وَقَالَ لِجَعْفَرٍ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي وَقَالَ لِزَيْدٍ أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَا تَتَزَوَّجُ بِنْتَ حَمْزَةَ قَالَ إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنْ الرَّضَاعَةِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ انسؓ نے نبی کریم صلیﷺسے اس کا ذکر کیا ہے۔

4251.

حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب نبی ﷺ نے ذوالقعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکے میں داخل ہونے سے روک دیا یہاں تک کہ آپ نے ان سے ان شرائط پر صلح کر لی کہ آپ آئندہ سال عمرے کے موقع پر مکے میں تین دن تک ٹھہر سکیں گے۔ جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد ﷺ نے صلح کی ہے تو مشرکین مکہ نے کہا: ہم اس کا اقرار نہیں کرتے۔ اگر ہمیں یقین ہو کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کو کسی چیز سے نہیں روک سکتے تھے لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔‘‘ پھر آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’لفظ ’’رسول اللہ‘‘ مٹا دو۔‘‘ حضرت علی ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو آپ کا نام کبھی نہیں مٹاؤں گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہ دستاویز اپنے ہاتھ میں لی، حالانکہ آپ اچھی طرح لکھ نہیں سکتے تھے۔ آپ نے لکھا: ’’یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ہے کہ وہ مکے میں ہتھیار لے کر داخل نہیں ہوں گے مگر وہ تلوار جو نیام میں ہو گی۔ اور اہل مکہ میں سے اگر کوئی آپ کے ساتھ جانا چاہے تو آپ اس کو اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ اور اگر آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی مکہ میں رہنا چاہے تو اس کو منع نہیں کریں گے۔‘‘ چنانچہ جب آپ آئندہ سال مکہ میں داخل ہوئے اور مدت گزر گئی تو مکہ والے حضرت علی ؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ آپ اپنے صاحب سے کہیں کہ وہ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ مدت ختم ہو چکی ہے۔ نبی ﷺ مکہ سے باہر تشریف لے گئے تو حضرت حمزہ ؓ کی بیٹی نے آواز دینا شروع کی: اے چچا! اے میرے چچا جان! حضرت علی ؓ نے اس کو اپنے قبضے میں لیا اور سیدہ فاطمہ‬ ؓ س‬ے کہا: اسے سنبھالو۔ یہ تمہارے چچا کی بیٹی ہے۔ سیدہ فاطمہ‬ ؓ ن‬ے اسے پکڑ لیا، لیکن اس کے متعلق حضرت علی، حضرت زید اور حضرت جعفر رضی اللہ عنھم جھگڑنے لگے۔ حضرت علی ؓ نے کہا: میں نے اسے پکڑا ہے اور وہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔ حضرت جعفر ؓ نے کہا: یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے۔ اور حضرت زید ؓ نے کہا: یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ نبی ﷺ نے اس کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا: "خالہ، ماں کی طرح ہوتی ہے۔" حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’تم مجھ سے ہو اور میں تجھ سے ہوں۔‘‘ حضرت جعفر ؓ سے فرمایا: "تم صورت و سیرت میں میرے مشابہ ہو۔" اور حضرت زید ؓ سے فرمایا: ’’تم ہمارے بھائی اور مولی ہو۔‘‘ حضرت علی ؓ نے کہا: (اللہ کے رسول!) آپ حمزہ کی بیٹی سے نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے (جس سے میرا نکاح نہیں ہو سکتا)۔‘‘