باب: اس بارے میں کہ کیا یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسجد فلاں خاندان والوں کی ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: It is permissible to say, "Masjid (mosque) of Bani so-and-so?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
426.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے تیار شدہ گھوڑوں کی دوڑ مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک، اور غیر تیار شدہ گھوڑوں کی دوڑ ثنیۃ الوفاع سے مسجد بنی زریق تک کرائی۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اس دوڑ میں حصہ لیا تھا۔
تشریح:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں فرماتے ہیں کہ تمام مساجد درحقیقت اللہ کی ملکیت ہیں کسی اور کی نہیں اس لیے کوئی شخص وہم کر سکتا ہے کسی انسان کی طرف ان کی نسبت کرنا صحیح نہیں۔ مصنف نے اس وہم کو دور کرنے کی غرض سے اس بات کو ثابت کیا ہےکہ مسجد کی نسبت کسی شخص یا قبیلے کی طرف جائز ہے اور ایسا کسی تعلق کی بنا پر ہو سکتا ہے مثلاً بنانے والے یا متولی یا قرب و جوار کے رہنے والے کی طرف اس کی نسبت کر دی جائے۔ جیسا کہ حدیث میں بنو زریق کی طرف نسبت کی گئی ہے۔ 2۔ امام ابن ابی شیبہ ؒ نے بیان کیا ہے۔ حضرت امام ابراہیم نخعی ؒ کسی مسجد کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا ناپسند کرتے تھے، اس لیے کہ مسجدیں صرف اللہ کے لیے ہیں، جبکہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ثابت کیا ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جمہور علماء بھی اس کی تائید کرتے ہیں اور ایسی مساجد میں جس نسبت کا بیان ہے، وہ تمیز کے لیے ہے، ملکیت بتانے کے لیے نہیں۔ (فتح الباري:667/1) 3۔ اس زمانے میں گھوڑوں کو جہاد کے لیے اس طرح تیار کیا جاتا تھا کہ پہلے انھیں خوب کھلا پلا کر موٹا کیا جاتا، پھر انھیں بھوکا رکھا جاتا اور گھروں میں ان پر جھول ڈال دیے جاتے تاکہ پسینہ آنے کے بعد ان کی چربی پگھل کر جز و بدن بن جائے ۔ یہ عمل چالیس دن کرنےسے گھوڑا تیز رو ہو جاتا اور اس کا سانس بھی بڑھ جاتا تھا، ان کی دوڑ کے لیے زیادہ فاصلہ رکھا گیا، جبکہ غیر تیار شدہ گھوڑوں کے مقابلے کے لیے فاصلہ کم رکھا گیا تھا۔ بنو زریق انصار مدینہ کے مشہور قبیلے خزورج کی ایک شاخ تھی۔ واضح رہے کہ دوڑ کا یہ مقابلہ جہادی مشقوں کا ایک حصہ تھا، اس کے برعکس موجودہ دور میں ریس کے، میدانوں میں جو دوڑ کرائی جاتی ہے جن کی ہار جیت کا سلسلہ جوئے بازی پر ہوتا ہے ایسی دوڑ میں شرکت کرنا مسلمان کے لیے جائز نہیں ۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگر مسائل کتاب الجهاد حدیث 2868 کے تحت بیان ہوں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
417
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
420
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
420
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
420
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
قرآن کریم میں ہے کہ تمام مساجد اللہ کی ہیں(الجن 18۔72۔)اس آیت کریمہ کے ہوتے ہوئے کسی مسجد کو اللہ کے سوا کسی دوسرے کی طرف منسوب کرنا شرعاً کیسا ہے؟ اور ایسی مساجد میں نماز پڑھنے کی کیا حیثیت ہے؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان بالا قائم کر کےواضح فرمایا کہ مساجد کے متعلق اس طرح کی نسبت جائز ہے کیونکہ اضافت صرف تملیک کے لیے نہیں ہوتی بلکہ دوسرے تعلقات جیسے تولیت قرب اور بانی ہونے کی وجہ سے بھی اضافت کی نسبت قائم کی جا سکتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ بہت باریک بین ہیں اس لیے آپ نے(هَل)سے یعنی تردو کے ساتھ عنوان قائم کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مسجد ،مسجدبنی زریق کہلاتی تھی لیکن یہ قطعیت کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کے علم میں یہ بات آئی تھی یا نہیں ؟ اس لیے ممکن ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسجد بنی زریق کہا گیا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں استدلال تمام نہ ہوگا۔( فتح الباری:1/667۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے تیار شدہ گھوڑوں کی دوڑ مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک، اور غیر تیار شدہ گھوڑوں کی دوڑ ثنیۃ الوفاع سے مسجد بنی زریق تک کرائی۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اس دوڑ میں حصہ لیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں فرماتے ہیں کہ تمام مساجد درحقیقت اللہ کی ملکیت ہیں کسی اور کی نہیں اس لیے کوئی شخص وہم کر سکتا ہے کسی انسان کی طرف ان کی نسبت کرنا صحیح نہیں۔ مصنف نے اس وہم کو دور کرنے کی غرض سے اس بات کو ثابت کیا ہےکہ مسجد کی نسبت کسی شخص یا قبیلے کی طرف جائز ہے اور ایسا کسی تعلق کی بنا پر ہو سکتا ہے مثلاً بنانے والے یا متولی یا قرب و جوار کے رہنے والے کی طرف اس کی نسبت کر دی جائے۔ جیسا کہ حدیث میں بنو زریق کی طرف نسبت کی گئی ہے۔ 2۔ امام ابن ابی شیبہ ؒ نے بیان کیا ہے۔ حضرت امام ابراہیم نخعی ؒ کسی مسجد کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا ناپسند کرتے تھے، اس لیے کہ مسجدیں صرف اللہ کے لیے ہیں، جبکہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ثابت کیا ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جمہور علماء بھی اس کی تائید کرتے ہیں اور ایسی مساجد میں جس نسبت کا بیان ہے، وہ تمیز کے لیے ہے، ملکیت بتانے کے لیے نہیں۔ (فتح الباري:667/1) 3۔ اس زمانے میں گھوڑوں کو جہاد کے لیے اس طرح تیار کیا جاتا تھا کہ پہلے انھیں خوب کھلا پلا کر موٹا کیا جاتا، پھر انھیں بھوکا رکھا جاتا اور گھروں میں ان پر جھول ڈال دیے جاتے تاکہ پسینہ آنے کے بعد ان کی چربی پگھل کر جز و بدن بن جائے ۔ یہ عمل چالیس دن کرنےسے گھوڑا تیز رو ہو جاتا اور اس کا سانس بھی بڑھ جاتا تھا، ان کی دوڑ کے لیے زیادہ فاصلہ رکھا گیا، جبکہ غیر تیار شدہ گھوڑوں کے مقابلے کے لیے فاصلہ کم رکھا گیا تھا۔ بنو زریق انصار مدینہ کے مشہور قبیلے خزورج کی ایک شاخ تھی۔ واضح رہے کہ دوڑ کا یہ مقابلہ جہادی مشقوں کا ایک حصہ تھا، اس کے برعکس موجودہ دور میں ریس کے، میدانوں میں جو دوڑ کرائی جاتی ہے جن کی ہار جیت کا سلسلہ جوئے بازی پر ہوتا ہے ایسی دوڑ میں شرکت کرنا مسلمان کے لیے جائز نہیں ۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگر مسائل کتاب الجهاد حدیث 2868 کے تحت بیان ہوں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انھوں نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان گھوڑوں کی جنھیں ( جہاد کے لیے ) تیار کیا گیا تھا مقام حفیاء سے دوڑ کرائی، اس دوڑ کی حدثنیا الوداع تھی اور جو گھوڑے ابھی تیار نہیں ہوئے تھے ان کی دوڑ ثنیا الوداع سے مسجد بنی زریق تک کرائی۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے بھی اس گھوڑ دوڑ میں شرکت کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
خاندانوں کی طرف مساجد کی نسبت کا رواج زمانہ رسالت ہی سے شروع ہوچکا تھا۔ جیسا کہ یہاں مسجد بنی زریق کا ذکر ہے۔ جہاد کے لیے خاص طور پر گھوڑوں کو تیار کرنا اوران میں سے مشق کے لیے دوڑ کرانابھی حدیث مذکور سے ثابت ہوا۔ آپ نے جس گھوڑے کو دوڑکے لیے پیش کیاتھا اس کا نام سکب تھا۔ یہ دوڑحفیاء اورثنیة الوداع سے ہوئی تھی جن کا درمیانی فاصلہ پانچ یا چھ یا زیادہ سے زیادہ سات میل بتلایا گیاہے اورجوگھوڑے ابھی نئے تھے ان کی دوڑ کے لیے تھوڑی مسافت مقرر کی گئی تھی، جوثنیة الوداع سے لے کر مسجد بنی زریق تک تھی۔ موجودہ دورمیں ریس کے میدانوں میں جودوڑکرائی جاتی ہے، اس کی ہارجیت کا سلسلہ سراسر جوئے بازی سے ہے، لہٰذا اس میں شرکت کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) ordered for a horse race; the trained horses were to run from a place called Al-Hafya' to Thaniyat Al-Wada' and the horses which were not trained were to run from Al-Thaniya to the Masjid (mosque of) Bani Zuraiq. The sub narrator added: Ibn Umar (RA) was one of those who took part in the race.