باب: مسجد میں مال تقسیم کرنا اور مسجد میں کھجور کا خوشہ لٹکانا۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The distribution (of goods or wealh) and the hanging of a cluster of dates in the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
امام بخاری کہتے ہیں کہ «قنو» کے معنی (عربی زبان میں) «عذق» (خوشہ کھجور) کے ہیں۔ دو کے لیے «قنوان» آتا ہے اور جمع کے لیے بھی یہی لفظ آتا ہے جیسے «صنو» اور «صنوان» ۔
427.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے پاس بحرین سے کچھ مال لایا گیا تو آپنے فرمایا:’’اسے مسجد میں ڈھیر کر دو۔‘‘ یہ مال اب تک آپ کے پاس لائے گئے مالوں سے بہت زیادہ مقدار میں تھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے اس کی طرف التفات بھی نہیں کیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آ کر اس کے پاس بیٹھ گئے، پھر جسے دیکھا اسے دیتے چلے گئے۔ اتنے میں حضرت عباس ؓ آپ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے بھی دیجیے، کیونکہ میں نے (بدر کی لڑائی میں) اپنا اور عقیل کا فدیہ دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: ’’اٹھا لو۔‘‘ انھوں نے اپنے کپڑے میں دونوں ہاتھ سے اتنا مال بھر لیا کہ اٹھا نہ سکے، کہنے لگے: اللہ کے رسول! ان میں سے کسی کو کہہ دیجیے کہ یہ مال اٹھانے میں میری مدد کرے۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ انھوں نے کہا: پھر آپ ہی اسے اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیں۔ آپ نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ اس پر حضرت عباس ؓ نے اس میں سے کچھ کم کیا اور پھر اٹھانے لگے لیکن اب بھی نہ اٹھا سکے، تو عرض کیا: اللہ کے رسول! ان میں سے کسی کو کہہ دیں کہ مجھے اٹھوا دیں۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ انھوں نے کہا: پھر آپ خود اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیں۔ آپ نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ تب حضرت عباس ؓ نے اس میں کچھ مزید کمی کی۔ بعد میں اسے اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ لیا اور چل دیے۔ رسول اللہ ﷺ ان کی حرص اور طمع پر تعجب کر کے انہیں دیکھتے ہی رہے حتی کہ وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ وہاں سے اس وقت اٹھے جب ایک درہم بھی باقی نہ رہا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
418
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
421
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
421
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
421
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
(قِنو)اور (صِنو)کےتثنیہ اور جمع میں فرق یہ ہے کہ ان کے تثنیہ کا نون حسب ضابطہ مکسور ہے جبکہ جمع میں نون پر تنوین ہے۔ اس کے تثنیہ اورجمع میں محض لفظی مثاکلت ہے نیز ایک جڑ سے نکلے ہوئے دودرختوں میں سے ہر ایک کو (صِنو)کہا جاتا ہے یہ دونوں الفاظ قرآن میں استعمال ہوئے ہیں۔احادیث میں مساجد کے اندر عبادت کے علاوہ دیگر امور کی بجا آوری کے متعلق ممانعت آئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے کہ مساجد تو خاص مقاصد کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں۔( صحیح مسلم المساجد حدیث:1262۔(569)) نیز فرمایا کہ مسجد یں صرف ذکر الٰہی نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں۔( صحیح مسلم الطہارۃ حدیث 661۔(285)) مساجد میں خریدو فروخت کرنے اور اشعار پڑھنے کی بھی ممانعت ہے۔ اور ان میں بآوازبلند گفتگو کرنا بھی ناجائز ہے۔ اگر کوئی شخص مسجد میں اپنی گم شدہ چیز کا اعلان کرے تو اس کی حوصلہ شکنی ان الفاظ سے کی جائے کہ اللہ تعالیٰ تیری چیز تجھے واپس نہ کرے۔ان تصریحات کے پیش نظر خیال کیا جا سکتا ہے کہ مسجد میں ذکر نماز اور تلاوت قرآن کے علاوہ دیگر امور کی بجا آوری جائز نہیں لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ضرورت کے مواقع پر اس میں توسیع ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مصالح عامہ کےمتعلق مختلف نوعیت کے امور مسجد میں سر انجام دیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ کبھی کبھی اور ضرورت کے پیش نظر ہوں اور ان کاموں کی انجام دہی سے احترام مسجد بھی متاثر نہ ہو۔ ضرورت کے بغیر یا مستقل طور پر مساجد میں عبادت ذکر اور تلاوت قرآن کے علاوہ دیگر کام کرنا درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمادی ہے کہ مساجد کی تعمیر ایسے کاموں کے لیے نہیں ہوتی ۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے آئندہ تراجم ابواب اور توسیع کی وجہ سے اس مغالطے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ یہ احکام بطور قاعدہ کلیہ کثیرالاستعمال اور عام ہیں بلکہ انصاف پسندی کا تقاضا ہے کہ ان تراجم میں بیان شدہ احکام کو بطور واقعہ جزئیہ خاصہ کے سمجھنا زیادہ بہتر اورقرین قیاس ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں آئندہ تراجم و احادیث کا مطالعہ کرنا مناسب رہے گا۔
امام بخاری کہتے ہیں کہ «قنو» کے معنی (عربی زبان میں) «عذق» (خوشہ کھجور) کے ہیں۔ دو کے لیے «قنوان» آتا ہے اور جمع کے لیے بھی یہی لفظ آتا ہے جیسے «صنو» اور «صنوان» ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے پاس بحرین سے کچھ مال لایا گیا تو آپنے فرمایا:’’اسے مسجد میں ڈھیر کر دو۔‘‘ یہ مال اب تک آپ کے پاس لائے گئے مالوں سے بہت زیادہ مقدار میں تھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے اس کی طرف التفات بھی نہیں کیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آ کر اس کے پاس بیٹھ گئے، پھر جسے دیکھا اسے دیتے چلے گئے۔ اتنے میں حضرت عباس ؓ آپ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے بھی دیجیے، کیونکہ میں نے (بدر کی لڑائی میں) اپنا اور عقیل کا فدیہ دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: ’’اٹھا لو۔‘‘ انھوں نے اپنے کپڑے میں دونوں ہاتھ سے اتنا مال بھر لیا کہ اٹھا نہ سکے، کہنے لگے: اللہ کے رسول! ان میں سے کسی کو کہہ دیجیے کہ یہ مال اٹھانے میں میری مدد کرے۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ انھوں نے کہا: پھر آپ ہی اسے اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیں۔ آپ نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ اس پر حضرت عباس ؓ نے اس میں سے کچھ کم کیا اور پھر اٹھانے لگے لیکن اب بھی نہ اٹھا سکے، تو عرض کیا: اللہ کے رسول! ان میں سے کسی کو کہہ دیں کہ مجھے اٹھوا دیں۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ انھوں نے کہا: پھر آپ خود اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیں۔ آپ نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ تب حضرت عباس ؓ نے اس میں کچھ مزید کمی کی۔ بعد میں اسے اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ لیا اور چل دیے۔ رسول اللہ ﷺ ان کی حرص اور طمع پر تعجب کر کے انہیں دیکھتے ہی رہے حتی کہ وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ وہاں سے اس وقت اٹھے جب ایک درہم بھی باقی نہ رہا۔
امام بخاری کہتے ہیں کہ قنو کے معنی کھجور کا خوشہ ہیں اور یہ مفرد کا صیغہ ہے۔ اس کا تثنیہ قنوان اور جمع بھی قنوان ہے، جیسے صنو کا تثنیہ اور جمع ایک ہی وزن صنوان پر آتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ابراہیم بن طہمان نے کہا، عبدالعزیز بن صہیب سے، انھوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس بحرین سے رقم آئی۔ آپ نے فرمایا کہ اسے مسجد میں ڈال دو اور یہ رقم اس تمام رقم سے زیادہ تھی جو اب تک آپ کی خدمت میں آ چکی تھی۔ پھر آپ نماز کے لیے تشریف لائے اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی، جب آپ نماز پوری کر چکے تو آ کر مال ( رقم ) کے پاس بیٹھ گئے اور اسے تقسیم کرنا شروع فر دیا۔ اس وقت جسے بھی آپ دیکھتے اسے عطا فر دیتے۔ اتنے میں حضرت عباس ؓ حاضر ہوئے اور بولے کہ یا رسول اللہ ؓ مجھے بھی عطا کیجیئے کیونکہ میں نے ( غزوہ بدر میں ) اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل کا بھی ( اس لیے میں زیر بار ہوں ) رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ لے لیجیئے۔ انھوں نے اپنے کپڑے میں روپیہ بھر لیا اور اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن ( وزن کی زیادتی کی وجہ سے ) وہ نہ اٹھا سکے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! کسی کو فرمائیے کہ وہ اٹھانے میں میری مدد کرے۔ آپ نے فرمایا نہیں ( یہ نہیں ہو سکتا ) انھوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اٹھوا دیجیئے۔ آپ نے اس پر بھی انکار کیا، تب حضرت عباس ؓ نے اس میں سے تھوڑا سا گرا دیا اور باقی کو اٹھانے کی کوشش کی، ( لیکن اب بھی نہ اٹھا سکے ) پھر فرمایا کہ یا رسول اللہ! کسی کو میری مدد کرنے کا حکم دیجیئے۔ آپ ﷺ نے انکار فرمایا تو انھوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اٹھوا دیجیئے۔ لیکن آپ نے اس سے بھی انکار کیا، تب انھوں نے اس میں سے تھوڑا سا روپیہ گرا دیا اور اسے اٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ لیا اور چلنے لگے، رسول اللہ ﷺ کو ان کی اس حرص پر اتنا تعجب ہوا کہ آپ اس وقت تک ان کی طرف دیکھتے رہے جب تک وہ ہماری نظروں سے غائب نہیں ہو گئے اور آپ بھی وہاں سے اس وقت تک نہ اٹھے جب تک کہ ایک چونی بھی باقی رہی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری قدس سرہ یہ ثابت فرمارہے ہیں کہ مسجد میں مختلف اموال کو تقسیم کے لیے لانا اورتقسیم کرنا درست ہے، جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے بحرین سے آیا ہوا روپیہ مسجد میں رکھوایا اورپھر اسے مسجدہی میں تقسیم فرمادیا۔ بعض دفعہ کھیتی باڑی کرنے والے صحابہ اصحاب صفہ کے لیے مسجد نبوی میں کھجور کا خوشہ لاکر لٹکادیا کرتے تھے۔ اسی کے لیے لفظ صنوان اور قنوان بولے گئے ہیں اوریہ دونوں الفاظ قرآن کریم میں بھی مستعمل ہیں۔ صنو کھجور کے ان درختوں کو کہتے ہیں جو دوتین مل کر ایک ہی جڑ سے نکلتے ہوں۔ ابراہیم بن طہمان کی روایت کو امام صاحب ؒ نے تعلیقاً نقل فرمایا ہے۔ ابونعیم نے مستخرج میں اورحاکم ؒ نے مستدرک میں اسے موصولاً روایت کیاہے۔ احمدبن حفص سے، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے ابراہیم بن طہمان سے، بحرین سے آنے والا خزانہ ایک لاکھ روپیہ تھا جسے حضرت علاء حضرمی ؓ نے خدمت اقدس میں بھیجا تھا اوریہ پہلا خراج تھا جو مدینہ منورہ میں آپ کے پاس آیا، آنحضرت ﷺ نے سارا روپیہ مسلمانوں میں تقسیم فرمادیا اوراپنی ذات ( اقدس ) کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں رکھا۔ حضرت عباس ؓ کے لیے آنحضرت ؓ نے روپیہ اٹھانے کی اجازت تومرحمت فرمادی، مگراس کے اٹھوانے میں نہ تو خود مدد دی نہ کسی دوسرے کومدد کے لیے اجازت دی، اس سے غرض یہ تھی کہ عباس ؓ سمجھ جائیں اوردنیا کے مال کی حد سے زیادہ حرص نہ کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Some goods came to Allah's Messenger (ﷺ) from Bahrain. The Prophet (ﷺ) ordered the people to spread them in the mosque --it was the biggest amount of goods Allah's Messenger (ﷺ) had ever received. He left for prayer and did not even look at it. After finishing the prayer, he sat by those goods and gave from those to everybody he saw. Al-`Abbas came to him and said, "O Allah's Messenger (ﷺ)! give me (something) too, because I gave ransom for myself and `Aqil". Allah's Messenger (ﷺ) told him to take. So he stuffed his garment with it and tried to carry it away but he failed to do so. He said, "O Allah's Messenger (ﷺ)! Order someone to help me in lifting it." The Prophet (ﷺ) refused. He then said to the Prophet: Will you please help me to lift it?" Allah's Messenger (ﷺ) refused. Then Al-`Abbas threw some of it and tried to lift it (but failed). He again said, "O Allah's Messenger (ﷺ) Order someone to help me to lift it." He refused. Al-`Abbas then said to the Prophet: "Will you please help me to lift it?" He again refused. Then Al-`Abbas threw some of it, and lifted it on his shoulders and went away. Allah's Messenger (ﷺ) kept on watching him till he disappeared from his sight and was astonished at his greediness. Allah's Messenger (ﷺ) did not get up till the last coin was distributed.