باب: جسے مسجد میں کھانے کے لیے کہا جائے اور وہ اسے قبول کر لے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Receivng and invitation to dinner in the mosque and accepting it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
428.
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: میں نے نبی ﷺ کو مسجد میں موجود پایا جبکہ آپ کے ساتھ کچھ دیگر حضرات بھی تھے۔ (میں وہاں جا کر کھڑا ہو گیا تو آپنے مجھ سے فرمایا: ) ’’کیا تجھے ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر آپ نے فرمایا: ’’دعوتِ طعام دینے کے لیے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں! چنانچہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا جو آپ کے پاس تھے: ’’اٹھو، (چلیں)۔‘‘ پھر آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے اور میں ان کے آگے آگے تھا۔
تشریح:
اس عنوان کےدو اجزاء ہیں۔ ایک دعوت دینا دوسرا دعوت قبول کرنا کرنا یہ دونوں کام مسجد میں ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت انس ؓ نے مسجد ہی میں آپ کو دعوت طعام پیش کی اور مدعو کا دعوت کو قبول کرنا بھی مسجد ہی میں ہوا ہے، دراصل امام بخاری ؒ ان ابواب میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں ہر قسم کی گفتگو پر پابندی نہیں ہے، کیونکہ جو گفتگو مسجد ہی سے متعلق ہو اس کے جائز ہونے میں تو کسی کو کلام نہیں ہے۔ اگر گفتگو مسجد سے متعلق نہیں تو بقدر ضرورت اس کا جواز ہے۔ جیسا کہ مسجد میں بیٹھے بیٹھے کسی شخص نے دعوت پیش کی اور وہیں اسے قبول کر لیا گیا تو اس کی اجازت ہے، کیونکہ یہ کلام جائز بقدر ضرورت ہے۔ (شرح تراجم بخاری)
نوٹ:امام بخاری ؒ اس حدیث کو مکمل طور پر کتاب المناقب (الحدیث 3578) میں بیان کریں گے لہٰذا اس سے متعلقہ دیگر مباحث بھی وہاں بیان ہوں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
419
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
422
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
422
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
422
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: میں نے نبی ﷺ کو مسجد میں موجود پایا جبکہ آپ کے ساتھ کچھ دیگر حضرات بھی تھے۔ (میں وہاں جا کر کھڑا ہو گیا تو آپنے مجھ سے فرمایا: ) ’’کیا تجھے ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر آپ نے فرمایا: ’’دعوتِ طعام دینے کے لیے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں! چنانچہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا جو آپ کے پاس تھے: ’’اٹھو، (چلیں)۔‘‘ پھر آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے اور میں ان کے آگے آگے تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس عنوان کےدو اجزاء ہیں۔ ایک دعوت دینا دوسرا دعوت قبول کرنا کرنا یہ دونوں کام مسجد میں ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت انس ؓ نے مسجد ہی میں آپ کو دعوت طعام پیش کی اور مدعو کا دعوت کو قبول کرنا بھی مسجد ہی میں ہوا ہے، دراصل امام بخاری ؒ ان ابواب میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں ہر قسم کی گفتگو پر پابندی نہیں ہے، کیونکہ جو گفتگو مسجد ہی سے متعلق ہو اس کے جائز ہونے میں تو کسی کو کلام نہیں ہے۔ اگر گفتگو مسجد سے متعلق نہیں تو بقدر ضرورت اس کا جواز ہے۔ جیسا کہ مسجد میں بیٹھے بیٹھے کسی شخص نے دعوت پیش کی اور وہیں اسے قبول کر لیا گیا تو اس کی اجازت ہے، کیونکہ یہ کلام جائز بقدر ضرورت ہے۔ (شرح تراجم بخاری)
نوٹ:امام بخاری ؒ اس حدیث کو مکمل طور پر کتاب المناقب (الحدیث 3578) میں بیان کریں گے لہٰذا اس سے متعلقہ دیگر مباحث بھی وہاں بیان ہوں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک نے اسحاق بن عبداللہ سے انھوں نے انس ؓ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں پایا، آپ کے پاس اور بھی کئی لوگ تھے۔ میں کھڑا ہو گیا تو آنحضرت ﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تجھ کو ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں آپ نے پوچھا کھانے کے لیے؟ ( بلایا ہے ) میں نے عرض کی کہ جی ہاں! تب آپ نے اپنے قریب موجود لوگوں سے فرمایا کہ چلو، سب حضرات چلنے لگے اور میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ حدیث مختصر ہے پوری حدیث باب علامات النبوة میں آئے گی۔ حضرت انس ؓ آگے دوڑ کر حضرت ابوطلحہ ؓ کو خبر کرنے کے لیے گئے کہ آنحضرت ﷺ اتنے آدمیوں کے ساتھ تشریف لارہے ہیں۔ حضرت انس ؓ نے مسجد میں آپ کو دعوت دی اور آپ نے مسجد ہی میں دعوت قبول فرمائی۔ یہی ترجمہ باب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): I found the Prophet (ﷺ) in the mosque along with some people. He said to me, "Did Abu Talha send you?" I said, "Yes". He said, "For a meal?" I said, "Yes." Then he said to his companions, "Get up." They set out and I was ahead of them.