قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابٌ: أَيْنَ رَكَزَ النَّبِيُّ ﷺ الرَّايَةَ يَوْمَ الفَتْحِ؟)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4280. حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا سَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ فَبَلَغَ ذَلِكَ قُرَيْشًا خَرَجَ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ وَحَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ وَبُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ يَلْتَمِسُونَ الْخَبَرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلُوا يَسِيرُونَ حَتَّى أَتَوْا مَرَّ الظَّهْرَانِ فَإِذَا هُمْ بِنِيرَانٍ كَأَنَّهَا نِيرَانُ عَرَفَةَ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ مَا هَذِهِ لَكَأَنَّهَا نِيرَانُ عَرَفَةَ فَقَالَ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ نِيرَانُ بَنِي عَمْرٍو فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ عَمْرٌو أَقَلُّ مِنْ ذَلِكَ فَرَآهُمْ نَاسٌ مِنْ حَرَسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدْرَكُوهُمْ فَأَخَذُوهُمْ فَأَتَوْا بِهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ أَبُو سُفْيَانَ فَلَمَّا سَارَ قَالَ لِلْعَبَّاسِ احْبِسْ أَبَا سُفْيَانَ عِنْدَ حَطْمِ الْخَيْلِ حَتَّى يَنْظُرَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ فَحَبَسَهُ الْعَبَّاسُ فَجَعَلَتْ الْقَبَائِلُ تَمُرُّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمُرُّ كَتِيبَةً كَتِيبَةً عَلَى أَبِي سُفْيَانَ فَمَرَّتْ كَتِيبَةٌ قَالَ يَا عَبَّاسُ مَنْ هَذِهِ قَالَ هَذِهِ غِفَارُ قَالَ مَا لِي وَلِغِفَارَ ثُمَّ مَرَّتْ جُهَيْنَةُ قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ مَرَّتْ سَعْدُ بْنُ هُذَيْمٍ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ وَمَرَّتْ سُلَيْمُ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى أَقْبَلَتْ كَتِيبَةٌ لَمْ يَرَ مِثْلَهَا قَالَ مَنْ هَذِهِ قَالَ هَؤُلَاءِ الْأَنْصَارُ عَلَيْهِمْ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ مَعَهُ الرَّايَةُ فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ يَا أَبَا سُفْيَانَ الْيَوْمَ يَوْمُ الْمَلْحَمَةِ الْيَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْكَعْبَةُ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ يَا عَبَّاسُ حَبَّذَا يَوْمُ الذِّمَارِ ثُمَّ جَاءَتْ كَتِيبَةٌ وَهِيَ أَقَلُّ الْكَتَائِبِ فِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ وَرَايَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ فَلَمَّا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي سُفْيَانَ قَالَ أَلَمْ تَعْلَمْ مَا قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ قَالَ مَا قَالَ قَالَ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ كَذَبَ سَعْدٌ وَلَكِنْ هَذَا يَوْمٌ يُعَظِّمُ اللَّهُ فِيهِ الْكَعْبَةَ وَيَوْمٌ تُكْسَى فِيهِ الْكَعْبَةُ قَالَ وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُرْكَزَ رَايَتُهُ بِالْحَجُونِ قَالَ عُرْوَةُ وَأَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبَّاسَ يَقُولُ لِلزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ هَا هُنَا أَمَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَرْكُزَ الرَّايَةَ قَالَ وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ أَنْ يَدْخُلَ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ مِنْ كَدَاءٍ وَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كُدَا فَقُتِلَ مِنْ خَيْلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ رَجُلَانِ حُبَيْشُ بْنُ الْأَشْعَرِ وَكُرْزُ بْنُ جابِرٍ الْفِهْرِيُّ

مترجم:

4280.

حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے سال روانہ ہوئے اور قریش کو یہ خبر پہنچی تو ابو سفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء رسول اللہ ﷺ کے متعلق معلومات لینے نکلے۔ چلتے چلتے جب مر الظہران پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ جگہ جگہ بکثرت آگ روشن ہے، گویا وہ عرفہ کی آگ ہے۔ ابو سفیان نے کہا: یہاں جگہ جگہ آگ کیوں روشن ہے؟ یہ جگہ جگہ آگ کے آلاؤ تو میدان عرفات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ بدیل بن ورقاء نے کہا: یہ بنو عمرو کی آگ معلوم ہوتی ہے۔ ابوسفیان نے کہا: بنو عمرو کے لوگ تو اس سے بہت کم ہیں۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ کے محافظ دستے (پہرے داروں) نے انہیں دیکھ کر گرفتار کر لیا اور پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔ حضرت ابو سفیان اس دوران میں مسلمان ہو گئے۔ پھر جب آپ ﷺ روانہ ہوئے تو حضرت عباس ؓ سے فرمایا: ’’ابوسفیان کو گھوڑوں کے کے ہجوم کی جگہ رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کی شان و شوکت بچشم خود ملاحظہ کرے۔‘‘ چنانچہ حضرت عباس ؓ نے انہیں ایسی ہی جگہ ٹھہرایا۔ اب وہ قبائل جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ان کے قریب سے گروہ در گروہ گزرنے لگے۔ جب پہلا قافلہ گزرا تو ابو سفیان نے پوچھا: عباس! یہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ قبیلہ غفار کے لوگ ہیں۔ ابو سفیان نے کہا: مجھے ان سے کوئی غرض نہیں۔ پھر قبیلہ جہینہ گزرا تو ابوسفیان نے ایسا ہی کہا: قبیلہ سعد بن ہذیم گزرا تو بھی انہوں نے یہی کہا: پھر قبیلہ سلیم گزرا تو بھی انہوں نے یہی کہا: آخر میں ایک ایسا لشکر گزرا کہ ابوسفیان نے اس جیسا لشکر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ حضرت عباس ؓ نے جواب دیا: یہ انصاری ہیں اور ان کے امیر حضرت سعد بن عبادہ ؓ ہیں جو جھنڈا تھامے ہوئے ہیں۔ تب حضرت سعد ؓ نے کہا: ابوسفیان ! آج تو گردنیں مارنے کا دن ہے۔ آج کعبہ میں کفار کا قتل جائز ہو گا۔ ابوسفیان نے کہا: اے عباس! تحفظ و حفاظت کا دن اچھا ہے۔ پھر ایک سب سے چھوٹی جماعت آئی۔ اس میں خود رسول اللہ ﷺ اور آپ کے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی تھے اور نبی ﷺ کا جھنڈا حضرت زبیر بن عوام ؓ کے ہاتھ میں تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ ابو سفیان کے قریب سے گزرے تو اس نے کہا: آپ کو معلوم نہیں کہ سعد بن عبادہ نے کیا کہا ہے؟ آپ نے پوچھا: ’’اس نے کیا کہا ہے؟‘‘ ابوسفیان نے کہا: اس نے ایسے ایسے کہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سعد نے غلط کہا ہے کیونکہ یہ تو وہ دن ہے کہ اللہ تعالٰی اس میں کعبہ کو بزرگی دے گا اور اس دن کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔‘‘ اس (عروہ) نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ آپ کا جھنڈا مقام حجون میں گاڑ دیا جائے۔ عروہ نے کہا: مجھے نافع بن جبیر بن مطعم نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سنا، انہوں نے زبیر بن عوام ؓ سے کہا: ابو عبداللہ! رسول اللہ ﷺ نے آپ کو یہیں جھنڈا نصب کرنے کا حکم دیا تھا؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس دن رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو حکم دیا تھا کہ کداء کی بالائی جانب سے مکہ میں داخل ہوں اور خود نبی ﷺ کدی (کے نشیبی علاقے) کی طرف سے داخل ہوئے۔ اس دن حضرت خالد بن ولید ؓ کی فوج سے دو آدمی، یعنی حضرت حبیش بن اشعر اور کرز بن جابر فہری ؓ شہید ہوئے۔