قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابٌ:)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4294. حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ عُمَرُ يُدْخِلُنِي مَعَ أَشْيَاخِ بَدْرٍ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِمَ تُدْخِلُ هَذَا الْفَتَى مَعَنَا وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ فَقَالَ إِنَّهُ مِمَّنْ قَدْ عَلِمْتُمْ قَالَ فَدَعَاهُمْ ذَاتَ يَوْمٍ وَدَعَانِي مَعَهُمْ قَالَ وَمَا رُئِيتُهُ دَعَانِي يَوْمَئِذٍ إِلَّا لِيُرِيَهُمْ مِنِّي فَقَالَ مَا تَقُولُونَ فِي إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا حَتَّى خَتَمَ السُّورَةَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ أُمِرْنَا أَنْ نَحْمَدَ اللَّهَ وَنَسْتَغْفِرَهُ إِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَيْنَا وَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا نَدْرِي أَوْ لَمْ يَقُلْ بَعْضُهُمْ شَيْئًا فَقَالَ لِي يَا ابْنَ عَبَّاسٍ أَكَذَاكَ تَقُولُ قُلْتُ لَا قَالَ فَمَا تَقُولُ قُلْتُ هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ اللَّهُ لَهُ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ فَتْحُ مَكَّةَ فَذَاكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا قَالَ عُمَرُ مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَعْلَمُ

مترجم:

4294.

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمیا کہ حضرت عمر ؓ مجھے شیوخ بدر کے ساتھ بٹھاتے تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا: آپ اس بچے کو ہمارے ساتھ کیوں بٹھاتے ہیں جبکہ اس جیسے تو ہمارے اپنے بیٹے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی علمی فضیلت تم لوگ بھی جانتے ہو، چنانچہ ایک دن حضرت عمر ؓ نے شیوخِ بدر کو بلایا اور ان کے ساتھ مجھے بھی آنے کی دعوت دی۔ میں سمجھ گیا کہ مجھے اس لیے بلایا گیا تاکہ انہیں میری برتری دکھائیں۔ انہوں نے فرمایا: تم لوگ اس سورت کے متعلق کیا جانتے ہو؟ (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ ﴿١﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا ﴿٢﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿٣﴾) حتی کہ انہوں نے پوری سورت پڑھی۔ ان میں سے کسی نے کہا: نصرت و فتح کے بعد ہمیں اللہ کی حمد و ثنا اور اس سے معافی مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کچھ نے کہا: ہمیں معلوم نہیں۔ کچھ تو بالکل خاموش رہے۔ حضرت عمر ؓ نے مجھے فرمایا: اے ابن عباس! کیا تم بھی اسی طرح کہتے ہو (جس طرح یہ حضرات کہہ رہے ہیں)؟ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: اس سورت میں اللہ تعالٰی نے رسول اللہ ﷺ کو مدتِ حیات کی اطلاع دی ہے۔ الفتح سے مرادفتح مکہ ہے، یعنی جب مکہ فتح ہو جائے اور اللہ کی مدد آ جائے تو یہ آپ کی علامتِ وفات ہے، اس لیے آپ اللہ کی حمد کریں اور استغفار کریں۔ بےشک وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں بھی اس آیت کریمہ سے وہی جانتا ہوں جو تم جانتے ہو۔