تشریح:
1۔حضرت ابن عباس ؓ اگرچہ چھوٹی عمر کے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں کے نتیجے میں صاحب بصیرت اور اہل علم تھے، اس لیے حضرت عمر ؓ نے ان کو اپنی شوریٰ کا ممبربنایا اور دوسروں پر انھیں ترجیح دیتے تھے، پھربھری مجلس میں ان کی علمی برتری کو ثابت کیا۔ 2۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ معارف قرآن سمجھے کے لیے صرف عربی میں مہارت ہوناکافی نہیں اور نہ ہر ایک کی سمجھ ہی معتبر ہے بلکہ اس کے لیے علوم متد اولہ میں مہارت کے ساتھ ایسےفہم کی بھی ضرورت ہے جس سے استنباط مسائل ہوسکے۔ 3۔شیوخ بدرسے مراد وہ بزرگ حضرات ہیں جو غزوہ بدر میں شرکت کرچکے تھے۔ 4۔سوال کرنے والے نے حضرت ابن عباس ؓ پر حسد نہیں کیا تھا بلکہ اس لیے کہا تھا کہ ہمارے بیٹے بھی ان جیسےہوں۔اس حدیث میں حضرت ابن عباس ؓ کی علمی برتری کوثابت کیا ہے۔ 5۔امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اس لیے پیش کیاہے کہ اس میں فتح مکہ کا ذکر ہے۔ واللہ اعلم۔