تشریح:
اونٹوں کی جگہ پر نماز پڑھنے کی ممانعت کے متعلق متعدد احادیث وارد ہیں جو اگرچہ امام بخاری ؒ کی شرائط کے مطابق نہیں، تاہم ان کی اسناد قوی ہیں۔ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث صحیح مسلم میں ،حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی حدیث ابوداؤد میں، حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ترمذی میں ، حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ کی روایت سنن نسائی میں اور حضرت سبرہ بن معبد ؓ سے مروی حدیث ابن ماجہ میں ہے۔ اکثر روایات میں لفظ (مَعَاطِن) آیا ہے، جس کے معنی ہیں، اونٹوں کو پانی پلاکر بٹھانے کی جگہ۔ بعض روایات میں (مَبَارِك الاِبِل) اور بعض میں (مناخ الإبل) کے الفاظ ہیں، لیکن امام بخاری ؒ نے ان تمام مروی الفاظ سے ہٹ کر مواضع کا لفظ استعمال کیا ہے، کیونکہ یہ تمام کو شامل ہے، نیز آپ کا کمال ادب واحترام اور احتیاط ہے کہ مبادا حدیث کے الفاظ سے تقابل ہوجائے۔ بعض روایات میں ممانعت کی وجہ ان کاشیاطین سے ہونابیان ہوئی ہے۔ کچھ ائمہ کا خیال ہے کہ (مَعَاطِن إبل) میں نماز پڑھنا درست نہیں، جبکہ امام بخاری ؒ یہ واضح کرنا چاہتے کہ اگر مقامات پر ممانعت کی علت اونٹ کاشیاطین سے ہونا مان لیا جائے تو اس میں معاطن کی کیا خصوصیت ہے، اونٹ جہاں بھی ہوجس حالت میں ہو، اس کے قریب نماز درست نہیں ہونی چاہیے۔ جب کہ روایات میں اس کا گھٹنا باندھ کر اسے سترہ بنانے کا ذکر موجود ہے۔ اونٹ پر سواری کی حالت میں نماز پڑھنا ثابت ہے۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک مذکورہ علت صحیح نہیں۔ ان کے نزدیک اصل بات یہ ہے کہ پانی پینے کی جگہ جہاں بہت زیادہ اونٹ جمع ہوتے ہیں اور پانی پی کر تازہ دم ہوجاتے ہیں، وہاں نماز پڑھنے میں اطمینان قلب میسر نہیں آتا، اس لیے ممانعت کردی گئی ہے۔ اگرجگہ پاک ہو اور اونٹ کو نکیل ڈال کر اور اس کا گھٹنا باندھ کر اس کے خطرات کو کم کردیا گیاہوتو ان مقامات پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اونٹ کو سامنے بٹھا کر نماز پڑھی اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ا یسا کرتے دیکھا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اونٹ کی شرارت سے اگر تحفظ ہوتواس کے قریب نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:683/1) ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ اونٹوں کی جگہ پر نماز پڑھنا درست نہیں، کیونکہ متعدد احادیث میں اس کی ممانعت وارد ہے۔ اور امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب اونٹ سامنے بیٹھا ہو اور اس سے کسی قسم کاخطرہ نہ ہوتو ایسے حالات میں نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ اور جن احادیث میں ممانعت آئی ہے وہاں یہ مقصود ہے کہ اونٹ کھڑے ہوں۔ اور ان کی طرف سے مستی میں آنے کا لات مارنے کا اندیشہ ہوتو اس سے نماز کا خشوع اوراطمینان غارت ہوگا، لہذا ایسے حالات میں وہاں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ بعض ائمہ کرام نے متعارض احادیث کو اس طرح جمع کیا ہے کہ ﴿ وَجُعِلَتْ لي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا﴾ کے عموم کے پیش نظر متعلقہ ممانعت کو نہی تنزیہی پر محمول کیاجائے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اسے بہترقراردیاہے۔ (فتح الباري:683/1) 2۔ بھینسوں اور گایوں کے فارم میں نماز پڑھنے کے متعلق کیا حکم ہے؟کیا ان کا اطلاق بکریوں کے ساتھ ہے کہ وہاں نماز میں کوئی قباحت نہیں یا انھیں اونٹوں کے حکم میں شامل کرکے وہاں نماز پڑھنے کو مکروہ کہا جائے گا؟ابوبکرابن المنذر ؒ نے اسے بکریوں پر قیاس کرتے ہوئے ان کے فارموں میں نماز پڑھنے کو جائز قراردیا ہے۔ جبکہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے، لیکن اونٹوں اور گایوں کے طویلے میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ (مسند احمد:178/2) لیکن اس کی سند میں ایک مشہور راوی ابن لیعہ ہے جس کے متعلق محدثین نے کلام کیا ہے۔ اس بنا پر یہ روایت صحت حدیث کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ (عمدة القاري:439/1)